ڈاکٹر راجہ افتخار خان کا اٹلی سےاردو بلاگ

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

اتوار, مارچ 06, 2005

ہم کون ہیں؟؟؟

ہم کون ہیں؟؟؟
روم جانا چھ سو کلومیٹر کا سفر ہے اور ایک مصیبت سے کم نہیں، مگر کیا ہے کہ ہر طبقہّ عوام سے تعلق رکھنے والے ہر پاکستانی کو چونکہ پاکستان ایمیسی جانا ہی پڑتا ہے اور اسکےعلاوہ چارہ نہیں، لہذا مجھے بھی جانا ہوتا ہے کوئی چھ یا سات مرتبہ گیا ہونگا مگر لازم ہے کہ ہر بار واپسی پر بخار کا ہوجانا، اور پھر بقول چچاغالب کے ’’ پڑیے جو بیمار تو کوئی تیماردار نہ ہو’’ ۔ وقت کی کمی کے باعث سارا سفر بھاگم بھاگ ہی گزرتا ہے، پہنچنا بھی صبح سویرے ’’ بڑے میاں کی بانگ’’ سے پیشتر ہوتا ہے کہ پہلے آوّ ، پہلے پاوّ پر عمل کرتے ہوئے شام کو فارغ ہوئے اور پھر واپسی کےلیے رات کی ٹرین پکڑلی۔۔۔۔۔۔۔۔ گزشتہ نومبرمیں میرا آخری چکر لگا، جسکے دو اسباب تھے اولاً ایمیسی میں کچھ کام تھا اور ثانیاً روم اسپرانتو ایسوسی ایشن نے ’’ اٹلی میں موجود کلچرز’’ کے عنوان سے ایک روزہ پروگرام رکھا ہوا تھا جس میں بندہ کے ذمہ ’’ اردو زبان اور پاکستانی ثقافت’’ کے بارے میں کچھ بیان فرمانا تھا، خیر روم حسب سابق صبح سویرے پہنچ اور سب سے پہلے حملہ ایمبیسی پر کردیا، وہاں سے ’’ جان بچی سو لاکھوں پائے’’ اور بھاگتے، گرتے پڑتے دو بجے کے بعد دوپہر سیشن میں جلسہ میں جا شامل ہوئے، شام کا کھانا شرکاّ کے ساتھ انتظامیہ کے خرچہ پر تناول فرمانے کے بعد رات کی ٹرین کا ٹکٹ لیا اور ٹرین کا انتظار شروع ہوگیا، دیکھتا ہوں کہ دو اور آدمی بھی چھ نمبر پلیٹ فارم پر ہی ٹہل رہے ہیں اور لگتے بھی پاکستانی ہیں۔ خیر مروتاً سلام دعا کے بعد معلوم ہوا کہ ہماری منزل ایک ہی ہے۔۔۔ اب طے یہ پایا کہ ٹرین آتے ہی ایک خالی کمپارٹمنٹ پر قبضہ کرلو جس میں چھ سیٹیں ہوتی ہیں، دروازہ بند کردو اور رات سوکر سفر کرو، ٹرین آئی اور ہم نے یہی کیا۔۔۔ قابض ہوکر ٹانگیں پسار لیں اور پردہ آگے کردیا، تھوڑی دیر میں دستک ہوئی۔ پردہ ہٹایا تو دو لڑکیاں، اٹالین اور وہ بھی جوان۔۔۔ہماری تو سیٹی ہی گم ہوگئی۔ بس جی آوُ دیکھا نہ تاوُ اور جھٹ سے دروازہ کھولا، تو ان میں سے ایک بعد از تعظیمات گویا ہوئی کہ ہماری تو دو سیٹوں کی ’’ویرونا’’ جی رومیو کی جولیٹ کا شہر، کی بکنگ ہے، ہم نے ’’ نہ جائے رفتن’’ کے مصداق ان کو ست بسم اللہ کہا اور ٹانگیں سکیڑلیں، اب کیا دیکھتے ہیں کہ انکے پیچھے پیچھے ایک اور اٹالیں لڑکا بھی آ دھمکا ہے۔ یعنی سب سیٹ بائی سیٹ اور ہاوُس فل۔۔۔۔ ٹرین کو رات کے ساڑے دس بجھے چلنا تھا سو چلی، کھڑکی والی سیٹوں پر تو ایک لڑکی اور وہ لڑکا تو ایک دوسرے کی ٹانگوں میں ٹانگیں پسار کے سوتے بنے درمیان میں آمنے سامنے دونوں پاکستانی دوست پڑے خراٹے لے رہے تھے، اور ادھر دروزہ کے پاس تھے ہم اور دوسری لڑکی، ایک دوسرے کے آمنے سامنے بلکہ گھٹنوں سے گھٹنے ٹکائے ہوئے۔۔۔ مجھے تو سفر میں ویسے ہی نیند نہیں آتی اور پھر ایک لڑکی کی قربت، نیند کس کافر کو آتی، بلکہ آنکھ تک نہ جھپکی۔ ’’ رات کاٹی خدا خدا کرکے’’ وقت گزاری کے لیے اسکے ساتھ بات چیت شروع ہوئی، موسم کی باتیں، سفر کی باتیں، کام اور اٹلی میں سخت مشینی زندگی کا رونا، پاکستان سے بھاگنے کی وجہ، کچھ اسکی سنی اور بہت اپنی سنائی اور یوں رات بیتائی۔۔۔ ٹرین اپنے مقررہ وقت پر ’’ویرونا’’ پہنچی، ہم نیچے اترے، انہوں کہیں اور جانا تھا سو ہاتھ ملایا، خوشگوار رفاقت کےلیے ایک دوسرے کا شکریہ ادا کیا، ہاتھ ملایا، سفر بخیر کہا، ہم نے اپنے شہر کی ٹرین پکڑی اور انہوں نے اپنے پلیٹفارم کا رُخ کیا۔۔۔ بعد میں بہت دیر تک میں سوچتا رہا کہ رات کا یہ سماں اور دو تنہا جوان لڑکیاں یوں اجنبی لوگوں کے ساتھ تھیں اور انکے دل میں کوئی خوف نہ تھا اور نہ ہی ہم لوگوں میں اتنی ہمت پڑی کہ انکے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ کرتے، ایک ہمارے ملک میں ہے کہ لڑکیاں باہر تو کیا گھروں تک میں محفوظ نہیں، لڑکیاں تو لڑکیاں خود مرد حضرات صبح گھر سے نکلیں تو امام ضامن بندھواکر اور پستول نیفہ میں لے کر نکلتے ہیں کہ حفاظت کےلیے دونوں ضروری ہیں۔۔۔۔ آج بھی جب کبھی روم کے سفر کی بات ہوتی ہے تو میرے دل میں خیال آتا ہے کہ آخر ہم کون ہیں؟؟؟؟

2 تبصرے:

  1. achi tahreerr hai .... likhtay rahy ... mein hi comments danay kay ky liya majood hon ... lolz...


    buchee....

    جواب دیںحذف کریں
  2. twada kalam akhan ya afsana akhan ya koog hoor akhan par joo wi akhan bara ahha akhan.hay joo kooch wi hay larkian noo shamal karan nal dilcalps ho gha hey par dooshian di kaharian poori ney hey soonai.ok
    anghan

    جواب دیںحذف کریں

اگر آپ اس موضوع پر کوئی رائے رکھتے ہیں، حق میں یا محالفت میں تو ضرور لکھیں۔

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں