ڈاکٹر راجہ افتخار خان کا اٹلی سےاردو بلاگ

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

پیر, فروری 13, 2006

نام نہاد آذادي صحافت

ڈنمارک کے اخبار کے کارٹون کے حوالہ سے یہ سوال ابھر کر سامنے آیا ہے کہ کیا کسی کی دل آزاری اور وہ بھی دنیا کی دوسری سب سے بڑی آبادی کی ، آزادی صحافت میں شامل ہے ؟
آج جبکہ نہ صرف ساري مسلم دنيا سراپا احتجاج ہے بلکہ اعتدال و حقيقت پسند غير مسلم بھي اس فعل کي پرزور مذمت کررہے ہيں۔ جبکہ دوسري طرف متعلقہ ممالک کي مصنوعات کا بائيکاٹ، احتجاجي جلسے جلوس، سفارتي تعلقات کا انقاط اور اموات تک واقع ہوچکي ہيں۔ اس کے باوجود ايک طبقہ ايسا بھي ہے جو ٰٰٰنام نہاد آزادئي صحافت کے نام پرٰ اس شرمناک حرکت کو نہ صرف درست قرار دے رہا ہے بلکہ مسلسل اسکا ارتکاب کيا جارہا ہے۔
آپ اس اس اہم موضوع پر اپنی راۓ کا اظہار فرمائیں۔
نيچے دئيے جانے والے ربط کا تعلق ايک آن لائين پٹيشن سے ہے۔ آپ سے درخواست ہے کہ اس پر کلک کرکے اپني پٹيشن ضرور درج کروائيں
اور دوست بلاگرز سے التماس ہے کہ اس ربط کو اپنے بلاگ پر ضرور جاري کريں۔ کہ برے کو برا کہنا تو بہرطور لازم ہے۔

1 تبصرہ:

  1. آپ کي بات درست ہے ۔ ہمارے خيال ميں ہر آزادي کي کچھ حدود ہوتي ہيں۔ مثلا آپ آزاد ہيں جو چاہے پہنيں يا پھر ننگے پھريں مگر کوئي آپ کو ننگا پھرنے نہيں دے گا۔ آپ آزاد ہيں جو چاہے بکواس کريں مگر آپ عدالت ميں بکواس نہيں کرسکتے، آپ عيسائيوں کے پيغمبر کے خلاف نہيں بول سکتے، آپ ہولوکاسٹ کے خلاف نہيں بول سکتے۔ آپ آزاد ہيں جو چاہے چھاپيں مگر آپ موجودہ حکمران کي بےہودہ تصوير نہيں چھاپ سکتے، آپ برہنہ تصوير نہيں چھاپ سکتے۔ اس کا يہي مطلب ہے کہ آپ آزاد ہيں مگر شرائط کے ساتھ ۔ اس سے يہي ثابت ہوتا ہے کہ جو آپ کے مفاد ميں ہے وہ آزادي ہے اور جو آپ کے مفاد ميں نہيں ہے وہ غداري اور دہشت گردي ہے۔

    جواب دیںحذف کریں

اگر آپ اس موضوع پر کوئی رائے رکھتے ہیں، حق میں یا محالفت میں تو ضرور لکھیں۔

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں