ڈاکٹر راجہ افتخار خان کا اٹلی سےاردو بلاگ

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

ہفتہ, اکتوبر 29, 2011

امیگریشن و معاشرتی تغیرات

رامونہ  نے مجھے ای میل   کی کہ  ویرونا یونیورسٹی  اور سولکو   مغربی پنجاب پر کچھ ریسرچ کررہے ہیں اور انکو ایک ایسا بندہ چاہئے جو پنجاب کا کلچر بھی جانتا ہے اور انکی اس پروجیکٹ کی تشکیل میں راہنمائی کرسکے۔       میں نے اس رابطہ پر اپنا چھوٹا سا تعارف لکھ بھیجا اور یہ کہ کارلائقہ سے ضرور یاد فرمائیں۔   پرسوں ماریہ  نامی خاتون کا فون آیا اور آج صبح ہفتہ کو ملاقات کا وقت طے پایا،    موصوف خاتو ن  ویرونہ یونیورسٹی کے ساتھ  سماجی نفسیات کے شعبہ میں ریسرچ پر ہیں،    اورادھر پاکستانی امیگرینٹ کمیونٹی چونکہ بہت بڑی ہے لہذا یونیورسٹی نے ایک پروجیکٹ تشکیل دیا ہے کہ میاں دیکھیں تو سہی یہ پاکستانی ادھر آکر جو یہ کھڑاک کرتے پھرتے ہیں ادھر اپنے ہاں کیا ہیں اور کیا کرتے ہیں چکر کیا ہے سینکڑوں نہیں ہزراوں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں ادھر سے ادھر تشریف لا رہے ہیں
۔
اس یونیورسٹی نے یوں کیا کہ  پنجاب یونیورسٹی  کے دو پروفیسرز کو  ادھر دعوت دی دو ہفتے رکھا ، کھانا کھلایا، سیرسپاٹا کروایا ر  کانفرنسیں پڑھواہیں اور  سر پر ہاتھ پھیر ماتھے پر پیار دے انکو  ادھر اپنے دیسے بیجھ دیا

اگلے برس یہ خاتون ادھر دو ہفتوں کو وارد ہوئیں  لاہور سے لیکر گجرات گئیں ادھر کڑیانوالہ گاؤں میں  کوئی چھ دن تشریف فرمارہیں اور دیکھتی رہیں کہ لوگوں کا رہن سہہن کیا ہے   ،  بقول میں چھت پر چڑھ جاتی اور آگے پیچھے کے گھروں کو دیکھ دیکھ کر اندازہ لگاتی رہتی  کہ اس گھر کی حالت بہت اچھی ہے ضرور اس گھر کے کافی بندے باہر ہوں گے،  اس گھر کی مرمت اچھی ہوئی ہے لازمی طور پر انکا ایک آدھ بندہ باہر ہوگا اور کھانے والے پیچھے زیادہ ہونکے ، یہ لگتا ہے کہ ایسا گھر کہ جس کا باہر کوئی بھی نہیں اسی لئے خستہ حال ہے۔   پھر وہ بڑے بڑے ولاز جو اکثر گاؤں کے باہر بنے ہوتے ہیں اور بند ہوتے ہیں یہ ظاہر کرتے ہیں کہ انکے بننانے والوں کے پاس دولت ابھی آئی ہے اور اس طرح آئی ہے کہ انکی کایا پلٹ چکی ہے۔  خاتون کی آبزرویشن یہ تھی کہ یہ جو باہر کا چکر ہے اس نے پنجاب کے معاشرہ اور معاشرتی اقدار کو تہس نہس کردیا ہے۔   کہ  ایک آدمی کے پاس بہت سے پیسے آگئے ہیں اور اس نے ایک بڑی سی کوٹھی بنا لی ہے پھر گلی کے باہر نالی میں کیچڑجمع ہے مگر چونکہ وہ تو حکومت کو بنانی ہے  لہذا وہ کبھی نہیں بنے گی اور اس ولا سے نکلنے والا پاؤں کیچڑ میں ہی پڑے گا۔۔

پھر بات چلی کہ یہ جو معاشرتی تغیر پیدا ہورہا ہے تمہارے ہاں حیرت کی بات ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی ایسا ادارہ نہیں ہے جو اس پر ریسرچ کررہا ہو، جو ان معاشرتی تبدیلیوں پر نظر رکھ رہا ہو،   کوئی ایسا ادارہ جو اس امیگریشن اور اسکے نتیجے میں   پیدا ہونے والے تغیرات    کا مطالعہ کررہا ہو اور اس سونے کی چڑیا کو بہتر انداز میں استعمال کرنے پر کام کررہا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  میں خاموشی سے سنتا رہا اور میرا دل خون کے آنسو روتا رہا ۔۔۔ واقعی ہمارے ہاں ایسا کوئی ادارہ نہیں ہے جو سونے کا انڈا دینے والی اس مرغی کی حفاظت کرسکتا ہو  اور اس طرح دیکھ بھال کہ  یہ طویل عرصہ تک مفید ہو اور یہ  کہ اس پیسے کی چانک ریل پیل سے معاشرہ میں تغیرات کم سے کم برپا ہوں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر کو ن ہے ایسا کوئی بھی تو نہیں کم از کم مجھے تو علم نہیں اگر آپ کو علم ہو تو ضرور لکھیں

اس خاتون نے ایک کتاب بھی لکھی ہے پردہ  یا تحفظ، تعلیم  اور معاشرتی تغیرات  پاکستان سے ہجرت کرنے والے خاندانوں میں

3 تبصرے:

  1. سونے کی چڑیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    یہ نحوست ایسی ہے کہ باہر کی کمائی جس گھر آئی۔
    اس کمائی نے اس گھر میں نکموں کی لائن لگائی اور ساتھ ہی میں معاشرے میں شرفا کیلئے جینا مشکل ہو گیا۔
    باہر کے کمائی والے اگر خود غرض بن جائیں تو اچھی گذرے لیکن عزیز و اقارب اور معاشرے کے دیگر کے ساتھ مل جل کر رہنا چاہیں تو مسائل بڑھتے ہی جاتے ہیں۔
    کوئی بیمار ہے تو بھی کسی کو دو ہفتے کیلئے پیسے کی نہایت ضرورت ہے تو دو ہفتے انتظار کے بجائے ابھی اسی وقت ادھار دو اور دو ہفتے بعد واپس لے لو۔ دو ہفتے بعد واپس ہوتے نہیں اور نا دو تو پکی نراضگی۔
    کوئی یہ نہیں سوچے گا کہ اس کے پاسس ہیں بھی یا نہیں۔
    بس باہر جو چلا گیا وہ مالدار ہو گیا۔یہ صرف پنجاب والوں میں ہی نہیں پورے پاکستان میں یہی حال ہے۔
    اس سونے کی چڑیا کو کنٹرول کرکے فائدہ اٹھانے سے بہتر ہے کہ پاکستانیوں کا ملک سے باہر نکلنا ممنوع کر دیا جائے۔
    جب خوب غربت ہو سارے ایک جیسے ہو جائیں۔لوٹ مار کرنے والوں کو اڑانا شروع ہوجائیں تو ٹھیک ورنہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کے مرجانا بہتر ہے۔
    سال میں ایک دفعہ گھر والوں کو ملنے جائیں۔چندہ مانگنے والوں کی لائن لگی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ دو چار ادھار مانگنے والے لازمی ہوتے ہیں۔۔
    ایسا صدقہ خیرات ،ادھار دینے کا کیا فائدہ جس سے دل میں خوشی ہی پیدا نا ہو۔بلکہ یہ احساس پیدا ہو کہ لوٹنے والے آگئے۔۔۔ان لوٹنے والوں کی ڈیمانڈ کے مطابق رقم نا دو تو ان کے چہروں پہ آنے والی بد مزگی دیکھنے کے قابل ہوتی ہے۔۔۔۔یہ سارا کمال باہر کی سونے کی چڑیا کا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. جی بالکل یہ بہت ہی اہم معاملہ ہے تارکین وطن کے بیجھے گغے پیسے نے ہمارے معاشرے میں بہت بڑی تبدیلیوں کو جنم دیا ہے اس سے طبقاتی اونچ نیچ اور پیسے کی دوڑ میں اضافہ ہوا ہے۔ اور ظاہر ہے جوں جوں پیسے کی دوڑ بڑتی جائے گی اخلاقی قدریں اپنا وجود کھوتی جایں گی۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. یاسر آپ نے تو اپنا سارا تجربہ بیان کردیا اور حق بات یہ ہے کہ یہ رام کہانی صرف آپ کی ہی نہیں بلکہ بیرون ملک بسنے والے ہر پاکستانی کی ہے۔ ظاہر ہے جب ملک کے اندر کچھ بھی نہیں ہوگا تو لوگ بیرون ملک ہی دیکھیں گے

    جواب دیںحذف کریں

اگر آپ اس موضوع پر کوئی رائے رکھتے ہیں، حق میں یا محالفت میں تو ضرور لکھیں۔

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں