ڈاکٹر راجہ افتخار خان کا اٹلی سےاردو بلاگ

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

بدھ, اکتوبر 19, 2011

سربراہ یا دشمن

  

جب ہمیں  گھر میں کوئی مسئلہ ہوتو سیدھے ابا جی کے پاس ،  چاہے بہن بھائیوں کا آپس کا جھگڑا ہوا،   امتحان کی فیس چکانی ہو یا پھر کالج ٹور پر جانے کی اجاز ت چاہئے ہو،  نئی بائیک خریدنی ہو یا اس میں پیٹرول ڈلوانا ہو،     یہیں پر موقووف نہیں بلکہ اگر ہمسائیوں کا کتا گلی میں بھونکتا ہو تو بھی،  کالج کے لڑکوں سے پھینٹی پڑے تو بھی ابا جی اور اگر آوارہ گردی کے چکر میں یا  بغیر لائینس کےڈرائیونگ کرتے ہوئے پولس پھڑ لے تو پھر بھی  ادھر ابا جی۔  مطلب اباجی کا   گھر کا قبلہ و کعبہ کہ ہرچیز انہی کے گرد گھومتی ہے


حکمران ملک کے ابا جان ہوتے ہیں نہ صرف سماجی طور پر بلکہ مذہبی طور پر بھی۔  ہمیں چھوٹا سا  مسئلہ درپیش ہو تو ایک عام آدمی کے طور پر بھاگم بھاک ادھر اپنے نمبردار، کونسلر، ممبر اسمبلی، وزیر   وغیرہ تک حسب  ہمت وتوفیق جیب یا بمطابق حسب ونسب پہنچے ہوتے ہیں یا کوشش کررہے ہوتے ہیں صرف اس خیال سے کہ یہ نیک لوگ جو ہمارے ہمدرد ہیں ہمارے اس مسئلہ کو حل کریں گے۔     بلکل ایسے ہی جس طراں اباجی کی طرف جاتے ہیں

 مگر اس وقت جو حالت ہے اس سے لگتا تو نہیں کہ  یہ اباجی  ہیں،   وہ ہمدرد، شفیق، غصے سے بھرے ہوئے،  بزرگ پر رعب،  ہنسے ہو ئے دوست، طاقت کا سرچشمہ، جو دنیا کے سارے مسائل چٹکی میں حل کردیتے ہیں ، اگر انہوں نے ہاں کہہ دی تو بس کہہ دی  اورناں کا مطلب نہ ہے۔  جن سے شاباش کے تمغے بھی ملتے ہیں اچھے کام کرنے پر اور گالیاں اور چھتر پڑنے کا خوف بھی ہوتا اگر کچھ الٹا سیدھا کرلیا تو۔ 

ابھی تو لگتا ہے کہ گھر کے اباجی ہی  خاندان کی ناس مارنے پر تلے ہوئے ہیں،  اہل خانہ اگر ڈینگی بخار سے مر رہے ہیں تو مریں، سیلاب میں بہہ گئے ہیں تو اچھا ہے ،   بجلی کے بغیر رہ رہے ہیں تو رہیں، پانی ان کے گھروں میں گھس گیا ہے تو خود نالی کھودیں اور نکالیں،  بچے اسکول نہیں جارہے تو نہ جائیں،  محلے کے لوگ ان پر گولیاں برسارہے ہیں تو برساتے پھڑیں۔

نہیں نہیں یہ کام  یہ رویہ ہمارے ابا جی کا نہیں ہوسکتا میں اس  بات پر قسم کھانے کو  ہی نہیں بلکہ مسجد اٹھانے کو بھی تیار ہوں  بقول فیاض بھائی۔   تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ لوگ کون ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم تمھارے اباجی ہیں  ابھی جو ملک کا احوال ہے   ظاہر ہے کسی ملک کے ہمدرد کی کاروائی تو ہ نہیں سکتی بس اس میں ملک دشمن ہی ملوث ہیں، ویسے تاریخ یہ بات ابھی نہیں بھولی کہ پی پی کو جب بھی کھل کھیلنے کا موقع ملا تو یہی کچھ ہوا بھتو نامی شخص نے ادھر تم ادھر ہم کا نعرہ لگایا اور ٹھاہ ملک دو ٹکڑے  ،  ابھی زرداری چار کرے گا ،  ایک  لاور بابا بھی اسی خاندان سے متعلقہ ہے سر شاہنواز بھٹو نام کا جو انگریزوں کی طرف سے ریاست جونا گڑ کا دیوان مقرر ہوا اور فیر اسکا وی دیوالا    نکال دیا ،   کرلو گل ابھی بھی یہ ڈاکٹر ملک، ڈاکٹر اعوان،  ڈاکٹر ذرداری،   ڈاکٹر گیلانی   اور دیگر تمام جو اپنا  آپ کو ملک کا اباجی سمجھتے ہی نہیں کہلواتے بھی ہیں،    کون جانے سچ کیا اور جھوٹ کیا؟؟؟

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اگر آپ اس موضوع پر کوئی رائے رکھتے ہیں، حق میں یا محالفت میں تو ضرور لکھیں۔

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں