ڈاکٹر راجہ افتخار خان کا اٹلی سےاردو بلاگ

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعرات, نومبر 03, 2011

جمہوریت آمریت اور بچہ لوگ

بہت  دیر سے لائین  میں کھڑے  رہنے کے بعد میں نے بھائی  جان سے پوچھا کہ کیا یہ مٹی کا تیل ہم اپنے کھیت کی مٹی  سے  نہیں بنا سکتے؟؟ بھائی  جان نے ڈانٹ دیا کہ چپ کر اور ادھر کھڑا رہ نہیں تو تیل نہیں ملے گا  اور رات کو لالٹین نہیں جل پائے گی۔  تب میری عمر کوئی چھ برس تھی،   نا سمجھی اور بچپن کے دن مگر وہ منظر میں آج تک نہیں بھول سکا جب روح افزا کے شربت والی شیشی کی کالی  سی بوتل ہاتھ میں پکڑے بھائی جان گھر سے مٹی کا تیل لینے نکلے اور میں خوامخواہ ضد کرکے انکے ساتھ ہولیا۔

  سن 1976 کی بات ہے جب ملک میں یہی آج والی صورت حال  تھی، تیل مٹی کا  نہیں ملتا تھا تب مٹی کے تیل کا ستعمال بھی یہی تھا کہ  لالٹین میں ڈال لو  اور شام کو گھر میں روشنی کرلو، لالٹین بھی ایک  دو گھروں میں ایک  ادھ ہی ہوتی ،   نہیں تو  تارہ میرا کے تیل  والا چراغ جلتا  ، جو روشنی کم اورکڑوا  دھواں زیادہ دیتا،   اور یہ رواج بھی  تھاکہ  ہمسائیوں کا لڑکا کہہ رہا ہوتا     ماسی میری اماں کہتی ہے لالٹین میں تیل ڈال دو،  اور ہماری دادی جان  کہہ رہی ہوتیں بسم اللہ میرا پتر، لا ادھر کرلالٹین ،  رات گئے  لالٹین بجھا دی جاتی کہ اب چاند نکل آیا ہے اورچاندنی کی موجودگی میں روشنی کا کیا کام،  مگر بھائی  جان چیخ رہے ہوتے  کہ  ابھی نہیں میں نے پڑھنا ہے۔  

حیرت ہوتی کہ ہمارے ملک میں  مٹی اتنی ہے اور مٹی کا تیل نایاب؟؟  بچپن اور ناسمجھی کے سوالات۔۔۔۔ صرف یہی نہیں ، تب   چینی، آٹا ،  پیاز کچھ بھی تو  نہیں ملتا تھا۔  خیرسے چینی آٹا کے بارے میں ہمارے خاندان خود کفیل تھا  کہ چینی چچا جان پنڈی سے اپنی یونٹ سے  اپنی فوجی گاڑی میں بھجواتے   ،  آدھی پورے پنڈ میں فوراُ بانٹ دی جاتی اور آدھی اگلی پہلی تک  رکھ دی جاتی کہ بھئی کوئی  غمی خوشی ہوجائے تو کام آئے گی،   اگر مذید ضرورت پڑتی تو سرگودھا سے ہمارے رشتہ دار وں کے ہاں سے گڑ آجاتا ، جو بہت مزے کا ہوتا  اور ہم لوگ  اتنا کھاتے کہ   پھوڑے نکل آتے فیر  ڈاکٹر عنصر سے کوڑوا شربت بھی ملتا  اور ٹیکہ بھی لگتا۔     آٹے کے معاملے میں گھر کی گندم کی پسوائی کروانی ہوتی اور فکرناٹ،  ڈیپو کا یہ عالم ہوتا کہ چچا سرور المشور چاچا سبو کے نام ڈیپو تھا  اور پہلے تو چینی فی کن مطلب فی بندہ   ایک  کلو دیتا اور بعد میں اس نے  ایک پاؤ کردی تھی، پھر فی بندہ سے فی گھر کے حساب سے تقسیم ہونے لگی۔

ماسٹر قربان صاحب کو دیکھا کہ کپڑے پھٹے ہوئے اور برے حال  میں لڑکھڑاتےٹانگے سے  اترے،      ہیں انکو کیا ہوا؟؟   کوئی بتا رہا تھا کہ یہ لاہور جلوس کےلئے جارہے تھا ماشٹروں کی ہڑتال میں  اور رستہ میں حکومت کے کہنے پر انکو پولیس نے پھینٹی لگائی ہے۔  پھر دیکھا کہ بھائی جان بھی روز لڑلڑا کر آتے اور دادا جان  سے گالیاں کھاتے    مگر بد مزہ نہ ہوتے،  کہ جی کالج اسٹوڈنٹ یونین  کا حق ہے کہ وہ اپنی آزادی کےلئے لڑے۔  کس کے خلاف لڑے ؟؟                       تب سمجھ نہ آتی۔

یہ زمانہ تھا بھٹو کے دور عنان کا ،   ملک بلکل اسی افراتفری کا شکار تھا جو آج ہے۔  ضروریات زندگی دستیاب نہ تھیں،   نہ ہی  ملک کے اندر کچھ سکون تھا، عوام بے چینی اور افراتفری کے عالم میں جی رہی  تھی،   فوجی روتے کہ اس بھٹو ٹن نے پاکستان توڑ دیا ہے ، بنگال کو بنگلہ دیش بنا دیا ہے،   اور مغربی پاکستان کو کل پاکستان قرار دے کر  اپنی  حکمرانی  کو جلا دی ہے،  اکثر  کوئی نہ کوئی  یہی کہہ رہا ہوتا کہ ایوب خان کے زمانے میں اچھے خاصے کام ہورہے تھے۔  ڈیم بن رہے تھے، صنعتیں لگ رہی تھیں، سڑکیں گلیا ں بن رہیں تھیں، کاروباری خوشحال ہورہا تھا،      ملک پینسٹھ کی جنگ لڑ کر آپ ایک قوم کی صورت میں سامنے آیا تھا  ، ہر کوئی وطن  پرستی کے جذبات سے سرشار تھا کہ  بھٹو نامی ایک ڈرامہ باز اٹھا اور اس نے روٹی کپڑا اور مکان کا فریب دے کر غریب لوگوں کو گھر سے نکال لیا،  ملک کے اندر وہ ہڑبونگ مچی کہ اللہ امان،     ایوبی حکومت ختم اور ملک میں پہلے اور واحد سول مارشل لاء کا نفاذہوا جس کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کا نام ذوالفقار علی بھٹو تھا۔  پھر وہ صدر بنا اور ملک کو ادھرتم ادھر ہم کر کے وزیر اعظم بن گیا،   مگر وہ ستر کی دھائی ملک کے اندر افراتفری  کےلئے یادگار  تھی، فوج کا مورال ڈاؤن،  عوام سڑکوں پر،  ہتھوڑا گروپ کا خوف،   چوریاں اور ڈاکے  ،   طلباء  اور ٹرانسپورٹروں کے فسادات،  اس یونین کا جلسہ اور اس یونین کا جلوس ،   نہ ہی کچھ کھانے کے ، نہ ہی تحفظ  ، نہ سکون نہ عزت،   مہنگائی تھی کہ دن بدن ہوشربا طور پر بڑھے جارہی تھی، قومیائے جانے کی وجہ سے صنعتیں بھیگی بلی بن چکی تھیں۔
 
ن دنوں میں ایک دم  ریڈیو پر خبر آگئی کہ فوج نے ملک کا کنٹرول سنھبال لیا ہے اور بڑی بڑی مونچھوں والا ایک جرنیل للکار رہا تھا  کہ اب جو فساد فی سبیل اللہ کرے گا ،  جو زخیرہ اندوزی کرے گا چوک میں الٹا لٹکادیا جائے گا،    چوری ، شراب  ، مجرا بازی، ہینکی پھینکی ،  چکری مکری سب منع  ، نہیں تو فوجی عدالت اور پھر بازارمیں کوڑے،    سنا تھا کہ جہلم  میں بھی کسی کو پڑے ۔

بس پھر کیا تھا جیسےجلتی  آگ پر پانی پڑ گیا ہو، چینی فوراُ بازار میں دستیاب ہوگئی، آٹا مل گیا، مٹی کا تیل وہی ڈپو کے بھاؤ  ہر جگہ دستیاب تھا،    مہنگائی  رک گئی  اور پھر سالوں چیزوں کی قیمتیں ادھر ہی ،  طلباء نے پڑھنا شروع کردیا ، صلوات کمیٹیا ں بن گئیں ،  زکوات کمیٹیاں بھی غریبوں کی امداد کو آگے بڑھیں، جتنی لچا پارٹی تھی سب مسجد کو پہنچی،   محلوں کے بدمعاش  چھپتے پھرتے۔
فوجیوں  کاجی پھر سے جذبہ شہادت سے شرشارہوا،  دفاع اور صنعت نے پھر سے ترقی کرنا شروع کردی،  ایٹمی صلاحیت حاصل ہوگئی،   ملک میں آنے والے افغان بھائیوں  کی کثیر تعداد کوبھی سنبھال لیا گیا،      افغانوں  کے ساتھ ملکر روسیوں کی  ایسی کی تیسی کردی، انڈیا کی فوجیں بارڈر پر لگیں تو صدر صاحب کرکٹ کے میچ دیکھنے پہنچے اور پھر جو ہوا وہ دنیا نے دیکھا، انڈیا کی فوج چپکے سے بارڈرز سے واپسی کو نکلی۔ 
  
بھٹو کی موت بعذریہ عدالتی سزائے موت ،   پھانسی ہوئی ،   تو  دوسروں کو کیا دیتا اپنے خاندان کےلئے  محل اور عوام کےلئے غربت  چھوڑ گیا،    کچھ لوگ رونے والے تھے کچھ مٹھائی بانٹنے والے،   عوام نے کچھ خاص نوٹس نہ لیا ،  بس کچھ سیاسی جلسے جلوس اور بات ختم ۔ کسی نے کہا شہید ہے تو کسی نے کہا کہ اگر یہ شہید ہے تو اسے شہید کرنے والے کو کتنا ثواب ملا ہوگا۔ 

پھر چشم فلک نے دیکھا کہ  یہ مرد مومن  جب شہادت کے درجہ کو پہنچا تو  ہزاروں نہیں لاکھوں نہیں کروڑوں آنکھیں اشکبار تھیں،   لاکھو ں  کا مجمع جنازہ میں شریک تھا اور خاندانوں   کے خاندان ٹی وی کے سامنے بیٹھے دھاڑیں مار رہے تھے۔ ہمارے اپنےپورے پنڈ  میں بھی ماتم   بچھی ہوئی تھی،      اس نے ملک کو سب کچھ دیا مگر اپنے اہل خانہ  کےلئے ایک زیر تعمیر مکان چھوڑ، کچھ ہزار کا بنک بلنس  اور ملک کےلئے بڑھتی ہوئی معیشت، ایک نظام اور فعال ادارے۔   تب پاکستان عالم میں ایک راہنما  اسلامی ملک کے طور پر ابھر چکا تھا۔کچھ نے اسے آمر کہا اور کچھ نے مرد مومن اور  شہید کا خطاب دیا، مردہ بدست زندہ مسجد میں دفن کردیا گیا

ہم  بطور قوم اس بچے کی طرح ہیں جو اپنے اچھے برے کو نہیں پہچانتا ، جو جمہوریت کی لولی پاپ سے خوش ہوتا ہے مگر  سخت قوانین کی کڑوی گولی سے ڈرتا ہے   سمجھائے نہیں سمجھتا کہ  ہرچمکتی ہوئی جمہوریت سونا  نہیں ہوتی  ،   آج ہم مذہب کے ہر علمبردار کو جاہل و بنیاد پرست قرار دے رہے ہیں بلکہ دل کرتا کہ ہے مولویوں کو ڈاکو قراردے کر مار ہی دیا جائے۔ اہل مغرب نے جو کہہ دیا ،    جمہوریت ہے تو اس کے نام پر ذرداری،  گیلانی،  اعوان، ملک، الطاف سب  بھائی بھائی اور بھائی لوگ سر آنکھوں پر۔
                  
آج پھر لالٹین میں تیل نہیں، آٹا نہیں، چینی نہیں، مہنگائی آسمانوں کو چھو رہی ہے،  فوج کا مورال ڈاؤن ہے، قوم  بے حس ہے، چور ڈاکو،  ہڑ ہڑ کرتے پھر رہے ہیں،  لچے عزتیں اچھال رہے ہیں، زکوات کمیٹی تو دور کی بات وزارت حج  و مذہبی امور غبن پر غبن کئے جارہی ہے، فراڈئے ، قاتل  ، دھانسے والے سب حکمرانوں کی فہرست میں شامل ہیں اور مجھے پھر انتظار ہے اس دن کا  جب پھر منادی کہہ دے گا ۔۔۔۔۔بس آج کے بعد بس۔۔۔۔۔۔۔۔ جس نے ہیرا پھیری کی، چکری مکری کی،  چوں چلاکی کی   اسکی شامت ،     پھر بچے پڑھنے لگیں گے،   پھر صنعت کا پہہہ چلنے لگے گا،      پھر آٹا ، چینی ، بجلی دستیاب ہوگی،  پھر  بدمعاشی کرنے والے کو چوک میں لکایا جائے گا،     اس وقت کا جب شریف آدمی سکون کا سانس لے سکے گا، 

اس وقت کا انتظار جب  میں اپنے اٹالین دوستوں کو کہہ سکونگا  کہ میاں میں تو چلا اپنے دیس  کہ ادھر راوی چین ہی چین لکھتا

11 تبصرے:

  1. ڈاکٹر صاحب۔۔۔ دل موہ لیا آپ کی اس تحریر نے۔۔۔ بہترین۔۔۔ میرے جذبات اور سوچ کی عکاسی۔۔۔ حق بات لکھنے پر مبارکباد وصولیے۔۔۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. بہت شکریہ عمران اقبال، سچ بات یہ ہی ہے کہ ہم لوگ بطور قو م ابھی بھی بچے ہی ہیں جو لولی پاپ کو چاہتے ہیں

    جواب دیںحذف کریں
  3. ڈاکٹر صاحب، حقیقت یہی ہے کہ ہماری قوم ذہنی طور پر بلکل بھی میچور نہیں۔۔۔ ہنسی مذاق اور ٹھٹوں کو انجوائے کرنے والے، مشکل وقت میں سوچ سمجھنے کی بجائے، رونے دھونے پر یقین کرتے ہیں۔۔۔ سوچنا، سمجھنا، غوروفکر ہمیں پسند ہی نہیں۔۔۔ اور جو شخص یہ جرم کر بھی بیٹھے تو اسے ذلیل و خوار کرنے میں یہ قوم کبھی پیچھے نہیں ہٹے گی۔۔۔ کونسا دانشور، سائنسدان یا عالم ایسا ہے ہمارے ملک میں جسے سب ملک کر عزت دیں۔۔۔ کوئی بھی نہیں۔۔۔ ایوب خان، ضیا اور کسی حد تک مشرف نے بھی ملک کے لیے جو کچھ کیا وہ یہ سب جمہوری مداری مل کر بھی نہیں کر پائے۔۔۔ ہم ڈنڈے کے مرید ہیں صاحب۔۔۔ ہم سے پیار سے بات کی جائے تو ہم سر پر چڑھ جاتے ہیں۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. بات ایک اچھے نظام کی ہے ایوب خان اور ضیاء الحق دونوں نے ملک کے اندر افراتفری کو ختم کیا اور ملک کے اندر سکون اور ترقی کی فضا برپا کی، مشرف تو دیگر شیاسیوں کی طرح کی ہے جس کی اپنی سوچ فکر نہیں بلکہ یہ کہ دن گزارو اور نکلو

    جواب دیںحذف کریں
  5. بہت اچھا لکھا ۔۔ یوں لگا جیسے آنکھوں کے سامنے فلم چل رہی ہو ۔۔ سارے منظر حقیقت پر مبنی ۔۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں
  6. پسنددیدگی کا بہت شکریہ حجاب، مگر یہ میرا سوال ہے کہ التجا کہ لوگ بھٹو کو ہیرو ماننا چھوڑ کیوں نہین دیتے

    جواب دیںحذف کریں
  7. ڈاکٹر صاحب ، بہت زبردست لکھا بہت عمدہ۔
    بھٹو میرا ہیرو نہیں ہے اور ناہی عمران خان میرا ہیرو ہے۔
    ضیا الحق بھی ہیرو تو نہیں تھا۔
    لیکن دوسروں سے بہتر ہی تھا۔

    جواب دیںحذف کریں
  8. راجہ جی ۔ چھا گئے او ۔
    بھولا بسرا کيا کيا ياد کرا ديا آپ نے ۔ دو باتيں ميں جمع کرنا چاہتا ہوں کہ اُس نام نہاد عوامی دور ميں ديسی گھی تو ناپيد تھا ہی نباسپتی گھی بھی لمبی قطار ميں کھڑے ہو کر فی کس ايک پاؤ ملتا تھا ليکن پيپلز پارٹی کا کھڑپينچ دوست ہو يا اس کی مالی سيوا کی جائے تو درجن بھر 5 کلو کے ڈبے مل جاتے تھے
    ضياء الحق دور ميں چينی سميت اجناس کی قيمتيں کم ہوئيں اور 10 سال کم ہی رہيں ۔ ايٹم بم جس کا سہرا ذوالفقار علی بھٹو کے سر رکھا جاتا ہے اس پر عملی کام ستمبر 1977ء ميں شروع ہوا جبکہ بھٹو کی حکومت 5 جولائی 1977ء کو ختم ہو چکی تھی

    جواب دیںحذف کریں
  9. یاسر صاحب بہت شکریہ، بھٹو کے نام پر ہم لوگوں کو چکر دیا جاتا ہے میں سر شاہ نواز بھٹو کے بارے میں نیٹ پر دیکھ رہا تھا آپ بھی دیکھو جو بھٹو کا باپ ہے۔ اس سے تو یہی لگا کہ اس خاندان کو پاکستان بھیجا ہی اس لئے گیا کہ ملک توڑے۔

    جواب دیںحذف کریں
  10. افتخار انکل بہت شکریہ داد اور تائید دونوں ، میں تو اس وقت چھوٹا تھا مگر ضیاء الحق کا زمانہ اپنے لڑکپن میں دیکھا بلکل ہرچیز کنٹرولڈ تھی، اور ہر مثبت کام کرنے کی آزادی بھی، یہ لوگ جو اسکی مخالفت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ آزادی نہیں تو وہ آزادی نہیں تھی، ٹھیک کہتے ہیں تب، عوام کو لوٹنے کی آزادی نہیں تھی، ہیرا پھیری کرنے کی آزادی نہیں تھی، حرام خوری و رشوت کی آزادی نہیں تھی۔ اب یہ ساری آزادیاں ہیں ، تو کیا ان ساری آزادیوں سے کوئی ملک قوم یا ایک گھر چل سکتا ہے؟؟

    جواب دیںحذف کریں
  11. عبدالرؤف1/05/2013 11:32:00 AM

    یہ تو پاکستان کی کہانی کا صرف ایک باب ہے جوکہ چالیس سال پہلے ختم ہوگیا تھا، بقیہ گذشتہ چالیس کی کہانی بھی لکھ ڈالیں تو مزا آجائے۔
    جہمہوریت اور آمریت کے بارے میں تو صرف اتنا کہونگا کہ دونوں ایک ہی سکے کے دو مختلف رُخ ہیں۔
    کہ بھیڑ بکریوں کو اس بات سے کوئی فرق تھوڑی پڑتا ہے کہ انکا گوشت اور اون کون کہاتا ہے، شرفاء یا ڈاکو۔
    ہاں بکریوں کے ریوڑ کو وہ سخت گیر مگر شریف گوشت خور زیادہ پسند آتا ہے جوکہ اسکو بناء تکلیف دیئے ذبح کرتا ہے، اس ظالم ڈاکو کے مقابلے جو کہ اسکو تڑپا تڑپا کے تکلیف دے دے کر اسکا گوشت نوچتا ہے۔
    ہاں البتہ اگر اسلامی نظام کی بات کی جائےتو وہ ایک امید کی راہ ہے جسکو ہم پسند نہیں کرتے۔ کیونکہ ہم جانتے ہی نہیں اس نظام میں بکریوں انصاف کے ساتھ چارا بھی ملتا ہے اور اسکی قربانی رائیگاں بھی نہیں جاتی۔
    اگر کچھ غلط کہہ گیا ہوں تو تصیح فرما دیجیئے گا۔

    جواب دیںحذف کریں

اگر آپ اس موضوع پر کوئی رائے رکھتے ہیں، حق میں یا محالفت میں تو ضرور لکھیں۔

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں