ڈاکٹر راجہ افتخار خان کا اٹلی سےاردو بلاگ

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

منگل, دسمبر 20, 2011

جنت میں آگ

کہتے ہیں  میرا گھر میری جنت،     اب گھر کیا ہے اس بارے میں مختلف لوگوں کی مختلف آراء ہوسکتی ہیں مگر اس پر سب کا اتفاق ہے کہ گھر گھروالوں سے ہی  ہوتاہے،  اب گھر والے کون ہیں؟ ظاہر ہے     اس سوال کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ وہ جو گھر میں رہتے ہیں ،  مگر میری اس بات سے بقول چچاطالب مطمعنی نہیں ہوتی۔  کہ میں جو گھر سے باہر رہتا ہوں پردیس میں کام کاج کے سلسلہ میں یا کسی دوسری معقول و نامعقول وجہ سے کیا میں گھر کا فرد نہیں رہا؟؟  لازمی طور پر ہوں جی ورنہ تو میرے پلے کچھ بھی نہ رہا۔  اسکا مطلب یہ بھی ہے کہ بہت سے ایسے لوگ بھی گھر کا حصہ ہوتے ہیں جو ہمارے گھر میں نہیں رہتے مگر ہم انکے ساتھ اتنے مربوط ہوتے ہیں کہ  گویا لازم و ملزوم ہوگئے۔ ہم پینڈولوگ کہتے ہیں 
کہ مرن جیون سانجھا۔  اب جن کے ساتھ ہمارا مرن جیون کا ساتھ ہوتو وہ ہمارے گھر کےلوگ کیسے نہ ہوئے۔

گھر میں اگر کوئی بیمار ہوجائے تو سارے پریشان، کام ، نوکری ، تعلیم  الغرض ہر معاملہ ایک طرف رکھ کر اس بندے کی ٹینشن لی جاتی ہے۔ تب  تک جب تک وہ تندرست نہ ہوجائے۔  شہروں میں تو نہیں مگر گاؤں میں ابھی بھی لوگ ایک دوسرے کا اس حد تک خیال رکھتے ہیں کہ اگر کوئی ایک تکلیف میں ہے یہ یا کسی مصیبت میں مبتلا ہے تو اسکا خیال رکھا جائے، کچھ نہیں تو زبانی ہمدردی کے دو بول ہی سہی اور تھوڑا دلاسہ ہی سہی، کسی مرگ پر اظہار افسوس کرنا چاہے وہ  رسمی طور پر ہی ہو،   بابے لوگ لاٹھی کھڑکاتے کہہ رہے ہوتے ہیں چلو جی افسوس کرآئیے  کہ مرن جیون سانجھا ہوندا ہے۔
جب ہمارے اردگرد میں مصیبتیں، مشکلات اور پریشانیاں ہونگی تو ہم بیچوں بیچ سکھی نہیں رہ سکتے،  گویا بندے کا گھر وہی نہیں ہوتا جہاں وہ رہتا ہو یا جہاں اسکے گھر والے رہتے ہوں بلکہ رشتہ دار دورکےبھی اور دور رہنے والے بھی،  قریب رہنے والے بھی سب کچھ ملا کر بندے کا گھر بنتا ہے۔   شاید اسی لئے پوش علاقوں میں گھر خریدنا مشکل ہوتا ہے کہ ادھر اپکے قریب رہنے والے سلجھے اور رکھ رکھاؤ والے ہونگے ، پر بندہ اسی چکر میں اچھے بھلے پیسے فالتو چکا جاتا ہے ورنہ شاید اسی سائیز کا گھر کسی  چنگڑ ایریا میں بہت سستا پڑے ۔

ہمارے پنڈمیں بہت تھوڑے سے لوگ رہتے ہیں  کل ملاکر کوئی دوسو کے قریب ہونگے بالغ وعاقل  اس سے دوگنی تعدادمیں بیرون ملک ہیں،  ہم  لوگ چونکہ سارے کے سارے ہی  نسل درنسل سے ادھر ہی پیدا ہورہے ہیں لہذا  یہ گاؤں سب کی جنم بھومی قرار پایا اور مرن جیون سانجھا ہوا۔ سچی بات یہ ہے کہ  ہر بندہ ایک دوسرے کا رشتہ دار ہے،   مجھے نہیں یاد کہ کبھی کسی بڑے کو بلحاظ عمر یا حسب رشتہ بھائی جان ،  چچا، تایا  ، بابا، دادی، ماسی  آپا کہہ کر نہ بلایا ہو،  اور اگر کبھی بھولے میں کسی بزرگ کے سامنے کچھ ہینکی پھینکی ہوگئی ہو تو چھتر پڑنے سے کوئی روکنے والا نہیں  تھا،  ہم سے چھوٹے بھی ہمیں بھائی جان کہتے  اور اب انکل بھی شروع ہوگیا ہے اور اب ہم انکو انکھیں نکال رہے ہوتے  ہیں۔
 بہت برس پہلے جب میں کالج میں پڑھا کرتا تھا اور بعد میں پڑھایاکرتا تھا تو جب پنڈمیں کوئی فوتگی ہوجاتی تو پورے گاؤں سے کوئی بندہ نہ تو تعلیم کےلئے جاتا اورنہ ہی نوکری پر،  فون کرنا پڑتا کہ جناب میرے پنڈ میں مرگ ہوگئی ہے میرا  پیریڈ کوئی سر لے لیں ۔ مزدور لوگ بھی اپنی دیہاڑی چھوڑ دیتے،  اگر کوئی تعمیر ہورہی ہوتی تو کام روک دیا جاتا، راج مستریوں کو کہہ دیا جاتا کہ جی ہمارے پنڈ میں  فوتگی ہوگئی ہے لہذا ابھی ختم تک تم لوگ فارغ، شادی بیاہ تک کو ملتوی کردیا جاتا کہ جی ہم لوگ سوگ میں ہیں۔   مطلب یہ کہ آپ پورے پنڈ کو اکٹھا کرلیں اور پوچھ لیں کہ کسی کی کسی کے ساتھ کوئی دشمنی، سارے مونڈی دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں ہلا دیں گے۔  پھر اسی طرح اگلے پچھلے گاؤں میں یا علاقہ میں کوئی مصیبت آجائے تو ہم لوگ بھی پریشان، ملک میں کچھ ہوجائےتو ہم افرا تفری میں ،کہ 
 میرا ملک میری جنت
گزشتہ کچھ برس سے  کچھ عجیب ہی ہواچلی ہوئی ہے کہ ہر دوچار برس بعد ایک ادھ بندہ قتل ہوجاتا ہے
چچا طالب کے گھر پر رات کو فائر ہوا اسکا  چند برس کا   پوتا چل بسا، کچھ پکڑ دھکڑ ہوئی  مگر ملزم چھوٹ کر آگئے کہ عدالت سے بے گناہ نکلے۔  کیس فائل۔پھر کسی نے ذکر نہیں کیا۔
پھر۔۔۔ پھوپھو خیرن  کا قتل ہوا  ساتھ میں انکی سات سالہ بھانجی کو بھی کاٹ دیا گیا، کچھ لوگ گرفتار بھی ہوئےبعد میں  پولیس نے انکےبھائی کے ذمہ ڈال دیا  وہ گرفتار ہوا اور انکے گھروالوں نے تپ کر کیس چھوڑ دیا، سارے باہر ،پولیس کو تفتیش نہیں کرنی پڑی اور کیس فائل ہوگیا۔
پھر بابا سائیں بھولا  کو بقول اسکے سوتیلے پوتوں نے سوتے میں ڈنڈا مارکر ہلاک کردیا،  ملزم باوجود نامزد ہونے کے گرفتارنہیں ہوا کہ آصف بھائی کے پاس  پلس کو دینے کو پیسے نہ ہی تھے اور نہ ہی وہ رشوت دینے والا بندہ ہے۔ کیس فائل ہوگیا۔
چچاوراثت خان کی لڑکی گھر والوں کو کراچی سے ملنے آئی ، رات کو فائر ہوا وہ چل بسی، ایک بندہ گرفتار مگر امید ہے کہ وہ بھی چھوٹ جائے گا کیوں کہ کوئی بھی تو اسکا گواہ نہیں ہے۔
  ابھی کل شام کو ہمارے ہمسائے میں چچی ناصر ہ پر فائرنگ کی گئی اور وہ چل بسی انا للہ و انا الیہ و راجعون۔    نہایت ملنسار، ہمدرد اور باخلاق خاتون تھیں،   ایک گھریلو قسم کی پابندصوم صلوات ، پڑھی لکھی  ماں جو اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کی تعلیم و تربیت میں مگن تھی۔ کسی کے ساتھ اونچ نیچ ، بحث و تکرار  کبھی نہیں سنی،  جب پاکستان جانا ہوتا تو  اپنوں کی طرح سر پر ہاتھ پھیرتیں اور دعا دیتیں۔  کل سے پوری ٹینشن میں  ہیں، ہم ادھر بھی اور جو ادھر ہیں وہ بھی۔  ہم انکو فون کررہے ہیں وہ جو گھر میں ہیں وہ ہمیں ۔
کون پکڑا جائے گا کون چھوٹے گا  ؟؟  ابھی کچھ معلوم نہیں مگر ان سارے بندوں کا خون کس مقصد کےلئے بہایا گیا؟؟  یہ تو میں کہہ سکتا ہوں کہ یہ سارے بندے ہی معصوم اور شریف لوگ تھے،   انکا قصور کیا تھا، ا نکو  کس جرم  کی سزا  دی گئی ؟؟
تو پھر سوال یہ ہے کہ اتنے شریف اور معصوم لوگوں کا خون کیوں؟؟   کیا کوئی پوچھنے والا نہیں ؟؟  کیا کوئی  روکنے والا نہیں ؟؟   کیا کوئی نہیں جو عوام کی جان و مال کی حفاظت کرسکے؟؟ کیا کوئی نہیں جو ان معصوموں کے اس قتل عام کو روک سکے؟؟
 میری جنت میں لگی اس آگ کا انجام کیا ہوگا ؟؟؟  کسی کے پاس کوئی حل؟؟؟

3 تبصرے:

  1. دراصل ہم اجماعتی طور پر اخلاقی پستیوں کی جانب رواں دواں ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ جب آپ کے پنڈ میں مرگ ہوتی تھی اور سب کچھ بند ہوجاتا تھا تب آپ کے پنڈ میں صوم الصلاۃ نا سہی اللہ توبہ اور حیاء ضرور موجود تھا لیکن اب۔۔۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. انکا قصور بھی اتنا ہی ہے جتنا گوجرہ کے زندہ جلائے جانے والے مسيحيوں کا تھا. يہ بات پنجابيوں کو سمجھ نہيں آسکتی ليکن کوشش کرتے ہيں؛

    First they came for the Jews
    and I did not speak out - because I was not a Jew.

    Then they came for the communists
    and I did not speak out - because I was not a communist.

    Then they came for the trade unionists
    and I did not speak out - because I was not a trade unionist.

    Then they came for me -
    and by then there was no one left to speak out for me.

    جواب دیںحذف کریں
  3. جناب گاوں دیہات میں یہ تمام قتل صرف زمین کیلئے ہوتے ہیں۔
    ایک آدھ عشق کیلئے ہوجاتا ہے۔
    اخلاقی تباہ حالی تو سارے پاکستان میں وبا کی طرح پھیلی ہوئی ہے۔
    انپڑھ پھر بھی کچھ اخلاق کا مظاہر ہ کر جاتے ہیں۔
    جو پڑھے لکھے ہوتے ہیں۔۔وہ اخلاقی دیوالیے پن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
    ایک دفعہ یہ آگ سب کچھ بھسم کردے گی۔
    پھر نئی کونپلیں نکلیں گئیں
    تو شاید کچھ امید بہار رکھی جا سکے۔

    جواب دیںحذف کریں

اگر آپ اس موضوع پر کوئی رائے رکھتے ہیں، حق میں یا محالفت میں تو ضرور لکھیں۔

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں