ڈاکٹر راجہ افتخار خان کا اٹلی سےاردو بلاگ

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعرات, فروری 16, 2012

گیدڑ اٹلی اور ووٹ

سنا  ہے کہ  گیدڑ کی جب موت آتنی ہے تو وہ شہر کا رخ کرتا ہے اور پھر بندے اس کو اتنی پھینٹی لگاتے ہیں کہ بس اسکی موت واقع ہوجاتی ہے، ویسے حق بات یہ ہے کہ گیدڑ کی موت کا فسوس کسی کو بھی نہیں ہوتا،   ہم نے بھی اپنے لڑکپن میں اپنے مرغی خانے کے گرد گھومنے والے کئی گیدڑوں  کے ساتھ اس محاورے پر علم درآمد پوری نیک نیتی اور ایمانداری سے کیا ہے  کسی نے کبھی کچھ کہا  اور نہ ٹوکا، اور بات ہے کہ کبھی کبھی  یہ گیدڑانسان نما بھی ہوا کرتے تھے،  انکی موت تو خیر کیا واقع ہونی تھی بس چھترو چھتری ہوجاتی۔ کوئی بڑا بزرگ کہہ دیتا اوئے چھڈ دو اے بڑا شریف بچہ ہے، ککڑ چھپانے تھوڑی آیا تھا، یہ تو بس ادھر سے گزر رہا تھا،  جبکہ ہمارا اصرار ہوتا کہ یہ ضرور ککڑوں کے چکر میں تھا، بس کچھ گالیاں اس کو اور کچھ ہمیں پڑتیں اور معاملہ  مک چک۔ شاید ہر طرف یہی کچھ چل رہا تھا، کہ رزق نے اٹھا کر ادھر پھینک دیا اور سب ختم ایک خوا ب کی طرح نہ محاورے اور نہ گیدڑ، نہ  کوئی ککڑیاں نکالنے کے چکر میں نظر آتا  اور نہ ہی گیدڑ کٹ چلتی۔
ادھر کئی برس گزر گئے ،اپنا کام کرو، گھر جاؤ، تھوڑا آرام، اگر کہیں پرھنے پڑھانے جانا ہے تو ٹھیک نہیں تو  ٹی وی، تھوڑا مطالعہ اور شب بخیر، چھٹی ہے تو ، کدھر سیر کو نکل جاؤ ، کسی کو مل لو ، نہیں تو کاچھا پہن کر پورا دن گھر میں بیڈ سے صوفے پر اور صوفے سے بیڈ  تک گزراردو،  جبکہ ادھر بسنے والے  بہت سے اپنے ہم وطن  ایمان ملا کی طرح برائے فساد فی سبیل اللہ ، آئے دن نئی نئی جماعتیں بناتے رہتے ہیں اور انکے صدر بنتے رہتے ہیں ، گزشتہ یہ عالم تھا کہ ہر بندہ دو دو تین تین جماعتوں کا عہدیدار تھا۔ مقصد ؟؟ آج تک معلوم  نہیں ہوسکا۔  پھر دور آیا سیاہ ست دانوں کا  ، ہر سیاہ سی جماعت کی ایک برانچ کھل گئی، ہر ساجھا ، مھاجا، مسلم لیگ، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، جماعت اسلامی، فلاں جماعت، فلاں جماعت   کا عہدیدار بنا اور پھر قومی سطح پر اور پھر یورپی سطح پر  بھی صدر اور صدر اعظم کے نام سنے گئے،  ہر جماعت کے کوئی بیس کے قریب صدر ہونگے، جنکو تولیہ مارنے میں ہمارے آن لائن اور آف لائینں اخبارات کو مہارت بدرجہ کمال حاصل ہے،
مقامی طور پر جدھر ہم رہتے ہیں ادھر کسی کو علم نہیں کہ کیا ہورہا ہے، ہیں اچھا الیکشن ہورہے ہیں،  مینوں تے کسی نے نہیں دسیا،  ہین اچھا برلسکونی وزیراعظم بن گیا ہے  مینو تے کسی نے نہیں دسیا
اچھا جی اوس نے استعیفٰی دے دیتا ہے ، مینوں تے کسی نے نہین  دسیا۔
اس کے علاوہ کوئی ٹینشن نہیں تھی،  نہ الیکشن نہ سلیکشن ،  نہ کسی سے ملو نہ کسی کو منہ دکھلاؤ،
اب خبر آئی ہے  ادھرسے بھی ووٹ جائے گی تو پھر وہی  کچھ ہونے کا ڈر لگ رہا ہے،  جنتا اپنے کام کاج چھوڑ کے جلسے کیا اور سنا کرے گی، ہیں جی ۔   وہی ووٹ خریدے جائیں گے ہیں،  وہیں چوول قسم کے بندے الیکٹ ہوئیں گے ہیں جی، پوچھو جو ایتھے پہڑے او لاہور وی پہڑے، اگر پاکستان میں رہنے والے 16 کروڑ  صرف گیلانی اور ذرداری کی قبیل کے بندوں کو ہی منتخب کر سکے ہیں تو یہ پینتیس لاکھ کیا توپ  چلا لیں گے، ہیں جی آپ ہی بتاؤ

5 تبصرے:

  1. ٹھیک !! آپ دو ٹھپے ( اسٹامپ ) ایک ہی ووٹ پر لگا دیں۔ضائع کرنے کا اچھا طریقہ ہے

    جواب دیںحذف کریں
  2. یہ بھی اچھا حکیمی نسخہ ہے مگر اس سے بھی اچھا نہیں کہ بندہ ادھر مننہ ہی نہ کرے ہیں

    جواب دیںحذف کریں
  3. واہ جی واہ
    آپ جیسے لوگ ہیں جو رنگ میں بھنگ ڈالتے ۔موج میلا چل رہا ہے بھائی جی چلنے دو :)
    پینتیس لاکھ لوگوں کا خوشیوں پر کوئی حق نہیں کیا؟ ہیں جی!!!

    جواب دیںحذف کریں
  4. اماں یار مفت کی بریانی پیڑنا ۔۔۔
    ویسے یہ چوول ہی ماری ہے میرے خیال سے پہلے اگر کوئی بھائی چارہ تھا تو اب وہ پارٹی بازی کی وجہ سے ختم ہوجائے گا

    جواب دیںحذف کریں
  5. واقعی حکومت نے چول ہی ماری ہے۔پہلے کونسا ملک ترقی کر رہا ہے ایک اور خرچے کی بنیاد رکھہ دی۔۔

    جواب دیںحذف کریں

اگر آپ اس موضوع پر کوئی رائے رکھتے ہیں، حق میں یا محالفت میں تو ضرور لکھیں۔

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں