لنڈن میں فرعون کی
تلاش
فرعون کے ساتھ ہمارا یارا نہ بہت پکا ہے اور پرانا بھی، کوئی کل کی بات تھوڑی ہے، بلکہ کئی برس گئے جب
لنڈن کو سدھارے تھے سنہ 2002 میں، تو بھی فرعو ن اور مایا کےلئے اپنی فلائیٹ مس کرنے
کی کوشش کربیٹھے، تب ہمارا مقصد برٹش میوزیم میں توتن خام صاحب کے
سونے کے ماسک کی زیارت کرنا تھا، مگر گورا صاحب نے اسے ہمارے جانے سے چند ماہ قبل
ہی قاہرہ میوزیم روانہ کردیا اور ہم ہاتھ
ملتے رہ گئے، کہ خان صاحب اگر چند ماہ پہلے آجاتے ادھر تو کون سی موت پڑنی تھی۔ یہ
توتن خامن صاحب بہت مشہور معروف فرعون
ہوئے، سنہ 1332 سے 1323 قبل مسیح ادھر
حکمران رہے اور جدید فراعین کی تاریخ
میں پڑھا ئے جاتے ہیں، انکا تعلق اٹھارویں ڈینسیٹی سے تھا جو سنہ
1550 سے 1292 قبل مسیح تک ادھر حکمران رہے، حضرت موسٰی علیہ سلام والا
فرعون رعمسس دوئم اس سے پہلے بھگت چکا تھا۔ ، یہ صاحب اپنے سونے کے ماسک اور سونے کے تخت کی وجہ سے
بہت مشہور ہوئے، مطلب موٹی اسامی تھے۔ توتن خامن کے مقبرے کی جب
کھدائی ہوئی 1920 میں تو کارٹر صاحب نے
عادتاُ اسکے مقبرے سے ہونے والا سونے
کاماسک بھی چپکے سے نکال کر کھیسے کیا اور پھر ولائیت کو سدھارے، جی ، جی، بلکل
اسی طرح جس طرح ہندوستان کے مقبروں کے
تختے بھی لے اڑے تھے اور آپ کو آج بھی لاہور ، دہلی اور آگرہ کے مقبروں کی دیوراوں
میں "موریاں" نظرآتی ہیں، جہاں
سے قیمتی پتھر نکالے گئے۔ توتن خامن کا
ماسک 2007 سے اسوان کے میوزیم میں توتن خامن کے مقبرے کے اندر زیارت کو دستیاب
ہے۔
میڈرڈ میں فرعون کا پیچھا
میڈرڈ میں جب سنہ 2009 میں جانا ہوا تو ادھر بھی ہماری
فرعون سے یاری نے جوش مارا اور ہم ادھر نکل لئے ٹمپل آف دیبود کی تلاش میں ، جو پلاسا سپانیہ کے ادھر قریب ہی
پایا گیا، خیر سے ادھر فرعون تو نہ پایا
گیا نہ "وڈا نہ چھوٹا" مگر چلو
اسکے پاس کی چیز ہے ، یہ ٹیمپل ادھر جنوبی مصر میں اسوان کے علاقہ میں
دریائے نیل سے کوئی 15 ک م کی نزدیکی پر تھا ،
یہ دوسری صدی قبل مسیح میں "عیسس"
نامی دیوی کےلئے تب کے بادشاہ "میروئے" نے تعمیر کروایا، اسکا چھوٹا کمرہ البتہ "ہاموں" نامی
دیوتا کے لئے مختص ہوا، یہ معبد اپنے
علاقے کی جامعہ مسجد ہی سمجھا گیا، پھر
جب 1960 میں جب عظیم اسوان ڈیم کا منصوبہ بنا تو پھر اسے ادھر میڈرڈ کو یاری کی علامت کے طور پر گفٹ کردیا گیا، بہر حال ادھر جا کر معلوم ہوا کہ اس کا براہ راست فرعون کے سا تھ کوئی تعلق نہیں ہے، اور یہ
کہ یار لوگوں نے ایویں "چوول"
ہی ماری ہے ۔ جو لو گ میڈر ڈ میں رہتے ہیں
ی جو لوگ ادھر غلطی سے پہونچ
جائیں اوریہ مضمون پڑھنے کے باوجود بھی اگر ادھر جانا چاہیں تو یہ معبد ادھر میڈرڈ کے رائل پیلس کے پچھواڑے
میں پایا جاتا ہے۔ ہیں جی۔
نہ جاسکے تو صرف قاہرہ نہ جاسکے، رہی بات تورینی کے میوزیم
کی تو چونکہ اس کی سیر حد سے دلچسپ رہی ،
جی جی ، کمپنی کی وجہ سے بھی، تو اسبارے کل لکھا جاوے گا۔ ابھی جولکھا گیا اسی کو
ہضم کریں اور صبر کہ سہج پکے سو میٹھا ہو۔
بوہوت یارانہ لگتا ہے (گبر سنگھ فیم) تبھی تو ساری دنیا چھان مارے موئے فرعون کے لیے۔
جواب دیںحذف کریںیقین مانیں اتنی محنت قلوپطرہ کے لیے کی ہوتی تو اب تک آپ کے گھر کی ٹلی بجا رہی ہوتی کہ وہ راجہ صیب یہاں رہتے ہیں جو ہیومیو پیتھی بھی جانتے ہیں:)
یہ معاملہ اس سے بھی بڑھا ہوا ہے جناب،
جواب دیںحذف کریںہائے ہائے آپ نے کیا یاد کروا دیا، ہمارے دل کے چھالے پھپھول رہے، فل جیلس ، پتا ہے قلوپطرہ بعد میں ادھر اٹلی میں ہی پیا گر سدھاری تھی، نہیں تو اتنی مشہور نہ ہوتی، خیر اس پر کسی دن لکھ ماریں گے۔