ڈاکٹر راجہ افتخار خان کا اٹلی سےاردو بلاگ

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

اتوار, جولائی 28, 2013

میلانو اور چور بڑھیا





میلان اٹلی کا شمالی بڑا شہر اور اسکا معاشی ہب،
 میلان  کی سٹاک  مارکیٹ  کے اتار چڑھاؤ  کا اثر پورے یورپ کی منڈیوں پر ہوتا ہے ۔  میلانو جہاں فیشن اور مارک کا چلن ہے، کہا جاتا ہے کہ یورپ کا سارا فیشن ادھر سے ہی نکلتا ہے، ڈوم سے لیکرگلیریا ویٹوریو ایمانوئیولے اور اس کے ارد کا علاقہ فیشن اور مہنگی شاپنگ کا گڑھ ہے، یہاں پر آپ کو صرف فلمی اسٹارز ہی نہیں بلکہ وزرائے مملکت بھی بھاؤ تاؤ کرتے اور شاپنگ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، جارجو ارمانی، حوگو، اور اس طرح کے بہت سے نام پنے بڑی بڑی دکانوں اور ایمپوریمز کے ساتھ جلوہ افروز ہیں اور قیمتیں اتنی کہ بڑے بڑوں کا پتا پانی ہوجاوے، کسی نے یہاں حناربانی کھر اور سید یوسف رضاگیلانی کو اور بندے نہیں نے ادھر عارف لوہار کو ونڈو شاپنگ کرتے پایا، ہمارے دوست شاہ جی کے بقول مولانا طاہر القادری جب ہمی جمی میں اٹلی آتے تھے تو میلان شاپنگ کےلئے 
ضرور جاتے اور بات ہے کہ ادائیگی انکے مریدین ہی کرتے ، ہیں جی مطلب مال مفت میلان میں بھی ۔


ڈوم سے کوئی اڑھاءی کلومیٹر کے فاصلے پر ویا آرکیمیدے ہے، وہاں پام سپر مارکیٹ میں اینجلا نامی 76 برس کی معمر خاتون داخل ہوئِ، اندر جاکر اس نے اپنا چشمہ نکالا اور لگا کر گوشٹ کی قیمت بہت محتاط انداز میں دیکھنے لگی، گویا اسکی روز کی پراکسی  تھی،  کافی دیر گوشت کا وہ ٹکڑا ہاتھ میں پکڑے وہ سوچتی رہی  اور پھر واپس ریک پر رکھ دیا ، یہ گوشت کا سب سے کم قیمت پیس تھا، پھر خاتون   آپنی  شاپنگ کارٹ  جس میں کاریئے  کی بریڈ کا ایک پیکٹ اور ٹیونا  فش  کا  170 گرام ایک ٹن  پیک تھا  کو  دھکیلتے  ہوئے  آگے  بڑھ کر چیز فورماجو گرانا پادانا کے ریک پر رکی اور اسکا سب سے کم  قیمت  ٹکڑا اٹھایا اور غور سے اسکی قیمت دیکھنے لگی  اور پھر اس پر ہاتھ ہولے ہولے پھیرنے لگی، شاید اسکے ذائقہ  کومحسوس کررہی تھی،  پھر وہ  بھی واپس  رکھ دیا ۔  واپس  پے منٹ کاؤنٹر کی طرف مڑنے ہی والی تھی تو اچانک اسکی نظر ٹک ٹاک کی میٹھی اور خوش ذائقہ  گولیوں  کی ڈبی  پڑی  ،   یہ ڈبی جسکی قیمت  75 سینٹ تھی  ادھر کسی نے ایسے ہی رکھ دی تھی ۔

خاتون کے چہر ے  پر ایک مسکراہٹ سی چھا گئی  ، شاید اسکا ذائقہ اور مٹھاس  یاد آگئی اور جانے کیسے  اسکا ہاتھ بڑھا اور وہ ڈبی اس نے اپنے ہینڈ بیگ میں رکھ لی۔

 
     یہ سین مارکیٹ  کا مینجر  اپنے دفتر میں بیٹھا دیکھ  رہا تھا اس  کا ہاتھ  فورا ُ   انٹرکام کی طرف بڑھا  اور سکیوریٹی  آفیسر   کو اس سین  سے مطلع کیا۔

اور جب خاتون اپنا سامان آپنی کارٹ  سے پے منٹ کاؤئنٹر  پر رکھ چکیں تو  سیکیوریٹی آفیسر نے خاتون کو اپنا  بیگ چیک کروانے کو کہا، اب  خاتون کے ہاتھ کانپنے لگے اور اس  نے اپنا بیگ کھول دیا ، سیکیوریٹی آفیسر نے ٹک ٹاک کی ڈبی  نکال کر خاتون کو اپنے ساتھ  دفتر میں  چلنے کو کہا، خاتون  کانپتے ہوءے قدموں سے اسکے پیھے ہولی ۔

مینجر  نے نہایت غصہ سے خاتون  سے پوچھا کہ آپ نے چوری کیوں کی، تو خاتون کو صورتحال  کی سنجیدگی کا احساس ہوا ، اسکی انکھوں میں آنسو آگئے اور وہ ڈبڈباتی ہوئی آواز میں معذرت خواہانہ لہجے  میں  بولی :   میں کوئی عادی چور نہیں ہوں ،   میں اسکے پیسے بھی دینے کو تیار ہوں۔

مگر مینجر نہ مانا اور اس نے پراکسی کے طور پر پولیس کو فون کردیا

17.45 منٹ
پولیس کے دو کارپورل  آرتورو اورفرانچیسکو،  ٹھیک  3 منٹ کے بعد مارکیٹ کے اندر داخلہ ہوئے اور سیدھے مینجر   کے دفتر کو پہنچے  تب خاتون کے ماتھے پر پسینہ آچکا تھا،  کارپورل انتونیو نے مینجر کا بیان سنا اور پھر خاتون کی طرف دیکھا، تو خاتون نے باقاعدہ رونا شروع کردیا،  تھوڑا دلاسہ تسلی  کے بعد وہ خاتون کچھ یوں گویا ہوئیں، میں کوئی عادی چور نہیں ہوں، میں ایک مجبور پنشنر ہوں، میں نے اپنی ساری جوانی  کام، محنت مزدوری کی اور اپنا مکان بنایا، اپنے بچوں کی تعلیم و پرورش  کی ، اب وہ بڑے ہوگئے ہیں تو اپنے اپنے گھروں کو ہولئے ، انہوں  نے کبھی میری خبر نہیں لی،   اب  میری پنشن اتنی ہی ہے  کہ ایک ہفتہ اس سے چلتا ہے اور باقی ماہ صرف ٹیونا اور کارئے بریڈ  سے کام چلتا ہے وہ بھی دن میں ایک بار۔ گوشت، پنیر اور سلاد کا ذائقہ صرف پنشن کے پہلے دن ہی افورڈ کرسکتی ہوں۔ آج جب یہ ڈبی میرے سامنے آئی تو مجھے یاد آگیا کہ اسے چکھے ہوئے 16 برس ہوگئے ہیں، میں اب اس عیاشی کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی،  جہاں یہ چیزیں ہوتی ہیں  وہاں میں کبھی گئی  ہی نہیں  مگر آج نہ جانے کس نے یہ ڈبی  ادھر رکھ  دی اور نہ جانتے  ہوئے میں نے یہ ڈبئی  اپنے بیگ میں منتقل کرلی۔میں اپنی پینشن میں جو معمولی سی ہے اپنا گزارہ کرتی آئی ہوں مگر آج جانے کیسے یہ ہاتھ چوک گیا، یا آنکھ چوک گئی۔ 

کارپورل آرتورو نے  پوچھا کہ آپ کی پنشن  کتنی ہے تو جواب ملا 350 یورو،  اور اس  کوصورت حال کی سمجھ آگئی  ، کہ جب میں  1780 یورو میں گزارہ  تنگی سے ہوتا ہے تو اس بچاری کااس معمولی رقم میں  کیسے ہوگا۔ فرانچیسکو نے  مینجر کو کہا کہ خاتون کو  قانونی  طور پر وارننگ دے کر چھوڑا جاتا ہے اور یہ کہ اسکا جو باقی کا سامان  ہے اس کے پیسے میں دیتا ہوں ، اسکو اپنی دادی  یاد آگئی تھی  جو اب اس دنیا میں نہیں تھی،  مگر اپنی پنشن  سے بھی  اسکو ٹک ٹاک کےلئے پیسے دیا کرتی تھی۔ تب تک ارد گرد بہت سے بندے اکٹھے ہوچکے تھے اور وہ مینجر کو لعن طعن کررہے تھے، ایک بندے نے معمر خاتون کےلئے کچھ اور کھانے کا سامان بھی لے لیا تھا۔ 

Arturo Scungio e Francesco Console
اور پھر ان دونوں پولیس والوں نے خاتون کو اپنی گاڑی میں اسکے گھر  پر چھوڑا اور نکل گئے۔
اس محلے کے لوگ ان دنوں اس واقعہ کا چرچہ کررہے ہیں جو بہت معمولی سا ہے مگر ایک بڑے معاشری تغیر کی نشاندہی کررہا ہے، ایک بڑے خلاء کی نشاندہی جو آئیس برگ کی طرح اوپر سے جتنا معمولی ہے نیچے اتنا ہی  بڑا ہے۔ مگر مینجر کو فل گالیاں مل رہی ہیں اور پولیس والوں کو شاباش دی جارہی ہے۔ 

یہ خبر میلانو  کے مقامی اخبار میں چھپی اور  مجھ  تک بعذریہ فیس بک پہنچی، ادھر بہت سے بندوں نے کمنٹس کیئے ہوئے تھے، کوئی سپر مارکیٹ کے مینجر کو گالیا ں دے رہا تھا تو کوئی اس پام چینل کی سپرمارکیٹس  کا بائی کاٹ کرنے کو کہہ رہا تھا، کوئی پولیس والوں کوشاباش دے رہا تھا،  کوئی حکومت کو کوس رہا تھا۔ کوئی مقامی حکومتوں  کے لتے لے رہا تھا۔
مگر کسی نے بھی نہیں کہا کہ ہمیں اپنے ارد گرد بسنے والےبزرگوں اور عمر رسیدہ افراد کا خیال رکھنا چاہئے ۔  
اس بارے آپ کا کیا کہنا ہے کس کو قصور وار ٹھہرایا جاوے؟؟ کون قصور وار ہے اس واقعہ کا ؟؟؟   

Milano, Via Arcimide, ladra Vecchia,  

7 تبصرے:

  1. "یہ خبر میلانو کے مقامی اخبار میں چھپی اور مجھ تک بعذریہ فیس بک پہنچی، ادھر بہت سے بندوں نے کمنٹس کیئے ہوئے تھے، کوئی سپر مارکیٹ کے مینجر کو گالیا ں دے رہا تھا تو کوئی اس پام چینل کی سپرمارکیٹس کا بائی کاٹ کرنے کو کہہ رہا تھا، کوئی پولیس والوں کوشاباش دے رہا تھا، کوئی حکومت کو کوس رہا تھا۔ کوئی مقامی حکومتوں کے لتے لے رہا تھا"

    Punjabi dikhtay hain..sab Aamir Liaqat ku galian detay hain lekin Punjaib aurtain hi sab say ziada phone bhi karti hain Aamir Bhai ku.

    جواب دیںحذف کریں
  2. آپ کی بات بالکُل درست ہے ۔قصور دوسرے پر ڈالتے ہوئے خود کو بری زمہ قراد دے دینا ہی ایک عمومی طرز عمل ہے بہت کم لوگ ہی مسئلے کو جڑ سے نِکالنے کی بات کرتے ہیں۔ شائد وقت ہی نہیں رہا لوگوں کے پاس

    جواب دیںحذف کریں
  3. راجہ صیب یورپ کا یہی چلن ہے۔ ماسی نے اپنے بچوں کو جوانی میں مجبور کر کے گھر سے نکالا ہو گا کہ دفع دور ہو اپنے گھر جاؤ اب الٹا پہیہ ہے

    جواب دیںحذف کریں
  4. راجہ جی
    کسی نے یہ بھی کسی جگہ کمنٹ ضرور کی ہوگی کہ
    ویک اینڈ پر کافی عرصہ بعد ماں باپ کو ملنے جاؤں گا/گی
    کسی نے بھی بوڑھے ماں باپ کا خیال رکھنے کی فضلیت پر بھاشن نہیں دیا ہوگا۔
    اپنے جاپان میں بھی یہی چل رہا ہے۔
    جوانی مست مست گذارو اور ماں باپ کی زندگی ہے انہیں اپنی ذمہ داری پر گذارنی ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  5. راجہ جی ۔ سائنس ترقی کر گئی لیکن سَینس مر چکی ہے ۔ ساری دنیا میں یہی حال ہے ۔ اللہ سبحانُہُ و تعالٰی نے ہمیں زندگی گذارنے کا طرقہ بتایا ہے مگر مسلمان بھی اس پر توجہ نہیں دیتے ۔ چوری کی سزا کتنی بڑی ہے ہاتھ کاٹنا مگر بھوکا چوری کر کے کھا لے تو نہ جرم ہے اور نہ گناہ ۔ والدین کی خدمت میں جنت کی بشارت دی گئی ہے مگر بات سمجھنے والے ہی سمجھتے ہیں

    جواب دیںحذف کریں
  6. I dont think that if love sowed, it cant reap in love. Working women face this problem more often that their kids dont get emotionally attached to them despite enjoying their mother's earning.
    Sarwataj.wordpress.com

    جواب دیںحذف کریں

اگر آپ اس موضوع پر کوئی رائے رکھتے ہیں، حق میں یا محالفت میں تو ضرور لکھیں۔

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں