ڈاکٹر راجہ افتخار خان کا اٹلی سےاردو بلاگ

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

بدھ, اگست 21, 2013

میرے خوابوں کا پاکستان





خواب  تو ہر بندہ ہی دیکھتا ہے اور ہم بھی، بس، بلکہ ہم تو کچھ زیادہ ہی خوابناک واقع ہوچکے ہیں، ذاتی طور پر بھی اور من حیث القوم بھی۔  خیر اسکا مطلب یہ تھوڑی ہے کہ بندہ کچھ نہیں کرتا اور خواب دیکھتا رہتا ہے اور علامہ خوابناک ہوچکا ہے وغیرہ وغیرہ، جی نہیں اب ایسی بھی کوئی بات نہیں،   پھر بھی جاگتے میں کچھ خواب دیکھنا تو بنتا ہے۔ 

 علم نفسیات کے مطابق خواب بندے کی ذہنی و جسمانی کیفیت کے مطابق تبدیل ہوتے رہتے ہیں ایسے ہی عمر کے مطابق بھی، آج چونکہ ہمارا موضوع چونکہ ہمارے خوابوں کا پاکستان ہے تو پاکستان کے بارے کچھ خواب بیان کئے جاویں گے۔ 

پہلاخواب
ملک میں رزق، یہ بڑا خواب تھا اور پہلا بھی، بعد از تعلیم وتعمیر جب کالج میں بطور لیکچرار آفر ہوئی اور ساتھ ہی اپنا کلینک بھی بنا لیا شام کے اوقات کےلئے تو خواب پورا ہوتا ہوا نظر آیا مگر پھر وہی چکنا چور ہو گیا کہ اس اسٹیٹس میں اور اس آمدن میں گزارہ کون اور کیسے کرے، بس کھینچ تان کے مہینہ پورا ہوتا اور ہم ہوتے، فالتو کے کسی بھی خرچہ کےلئے ابا جی کی خدمت میں درخواست جمع کروانی پڑتی ۔ ہیں جی۔ اللہ اللہ یہ خواب ابھی تک ایسا ہی ہے کہ ہر نوجوان کو پاکستان کے اندر ایسا روزگار ملک جاوے جو اسکے سارے بنیادی اخراجات پورا کرنے کا ضامن ہو اور کوئی بندہ پھر ملک سے باہر جانے کا نام بھی نہ لے۔ 

دوسرا خواب 
چونکہ ہماری پیدائش و تربیت ایک دیندار اور ایماندار گھرانے میں ہوئی ہے تو ہماری تربیت میں شامل ہے کہ دوسروں کا خیال رکھو، کسی کے ساتھ زیادتی نہ ہونے پائے، بڑوں کی عزت اور چھوٹوں سے شفقت کا برتاؤ ہونا چاہئے یہ ہمارا خواب بن گیا کہ پاکستان میں سب ایسے ہی ہوں۔

پردیسی کے خواب 
جب دیس سے دانہ پانی اٹھا تو پردیسی ہوئے، کچھ اور طرح کے خواب جانے کیوں خود بخود ہی بن گئے۔ بہت سے ممالک کی یاترا کے دوران، کسی کانفرنس میں، کسی جلسہ و کورس کے دوران، یہ سوال اٹھ ہی جاتا ہے کہ تم کہاں کے ہو؟ پاکستان کا۔ اوہو، اچھا تو کیسا ہے پاکستان؟؟  حقیقتاُ یہ سوال وہ کوئی شغل کےلئے نہیں کرتے، کیوں کہ کسی عوامی درجہ کے بندے کو پاکستان کے بارے آگاہی ہے ہی نہیں، ہے بھی تو بہت کم۔ بس پھر ہمارے خوابوں کا پاکستان شروع ہوجاتا ہے۔ خوابوں سے بھی زیادہ خواہشات کا پاکستان۔

 وہ پاکستان جو میرا ہے، جہاں دنیا کے بلند بالا پہاڑ ہیں، گلیشیرز ہیں اور انکی ٹھٹھرتی ہوائیں بھری گرمیوں میں یخ بستہ ہوتی ہیں، جہاں کی جھیلوں کا شفاف پانی آپ چلو میں لیکر پی سکتے ہیں، جہاں ٹرواؤٹ مچھلی کو ایسے ہی شلوار کو گانٹھ لگا کر آپ پکڑ سکتے ہیں 
ہمارے پاکستان میں پٹھان ہیں جو اپنی مہمانداری اور شجاعت میں ثانی نہیں رکھتے، دشمن انکے نام سے ہی کانپتے ہیں، جنکی دینداری مسلمہ ہے،  جہاں پنجابی دہکان زمین کا سینہ چیر کر سال میں تین فصلیں اگاتا  اور پورے ملک ملک کو گہیوں، گنے چاول دالوں کی کمی نہیں ہونے دیتا، جس کا سندھی اپنی مچھلی اور سبزیوں و کھجوروں سے ملک کو خودکفیل کرتے ہیں، جہاں بلوچی کوہ شکن پہاڑوں کو چیر کر تیل گیس، کوئلہ سے لیکر یورینیم سونا تانبہ تک اور ہیرے وغیرہ بھی نکال لاتا ہے، جہاں مہاجر اپنے آپ کو ملک کو عام باشندہ سمجھتے ہیں اور صنعتی ترقی میں اپنا پورا کردار ادا کررہے ہیں۔ 

پاکستان میں پانچ دریا اور پانچ ہی موسم ہیں جو خوبانی سے لیکر کھجور تک میں ہمیں خود کفیل بناتے ہیں۔ جہاں زمیں سونا اگلتی ہے اور پانی کے جھرنے چاندی کےہیں، جہاں درخت زمرد کے بنے ہوئے ہیں۔ اللہ کا اتنا کرم ہے کہ کوئی غریب نہیں، ہو بھی کیسے سب لوگ ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں۔ دریاؤں کا پانی اس حد تک صاف کہ بس چلو میں لو اور پی لو، منرلز سے بھرا ہوا، خریدنے کی ضرورت ہی نہیں۔ بس

 پاکستان میں لوگ بہت دیندار ہیں اور ایماندار اس سے بھی بڑھ کر، اتنے کہ پولیس تھانہ ہے تو سہی مگر لوگوں کو یاد ہی نہیں رہتا کہ ہے کہاں پر، جرائم تو ہیں ہی نہیں، اول تو کوئی چورا چکاری ہیرا پھیری کانام ہی نہیں کوئی ایک ادھ واقعہ پیش آبھی جائے تو کوئی بزرگ لعن طعن کردیتا ہے اور اگلا توبہ کرلیتاہے۔ پولیس کا کام صرف یہ ہے کہ وہ رفاع عامہ کا خیال رکھے، کسی کی گاڑی راستہ میں خراب ہوگئی تو پولیس والے نے ٹائر بدلی کردیا، کسی مائی کا پرس کھو گیا تو وہ تھانے چلی گئی اور بس تھانیدار نے اسکو سفر کا کرایہ اپنی جیب سے نکال دیا۔  کوئی کہہ رہا تھا کہ پولیس اب آگ بجھانے کا کام بھی کرتی ہے۔  

انصاف کا یہ عالم کہ عدالتوں میں تو لوگ جاتے ہی نہیں، ضرورت ہی نہیں، بس بھول چوک یا کوئی غلطی ہوگئی اور اگلے نے فوراُ معافی مانگ لی اور دوسرا کوئی بات نہیں بشری غلطی کہہ کر نکل لیتا ہے۔ دل میں بغض و کینہ تو نام کو نہیں، عدالتیں تو اب صرف اکا دکا اتفاقیہ جرائم اور حادثات نپٹاتی ہیں، سنا ہے کہ یہ محکمہ ہی ختم کیا جارہا ہے کہ جب ضرورت ہی نہیں تو پھر۔ جب ایمانداری کا یہ عالم ہو کہ آپ اپنا پر بس اسٹاپ پر چھوڑ آئیں اور شام کو وہ آپ کے گھر پہنچ جاوے، گھروں کو تالا کوئی نہ لگاتا ہو، تو پھر عدالتیں کیا کریں گی آپ ہی بتلاؤ۔ تلخ کلامی اور چیخ چیخ تو بھول ہی جاؤ بس۔ 

پاکستان میں مسجدیں نمازیوں سے کھچا کھچ بھری ہوتی ہیں اور امام صاحب صرف تقریریں نہیں کرتے بلکہ لوگوں کے مسئلے حل کررہے ہوتے ہیں، تفرقہ تو نام کو نہیں اور مسجد میں لوگ صرف نماز پڑھنے نہیں جاتے، وہاں تو جناب ایک دوسرے کا حال احوال دریافت ہوتا ہے، کسی کو کوئی پریشانی، کوئی مشکل، ہوتو فوراُ حل، اور مسجد چندہ بھی نہیں مانگتی، بلکہ مسجد کے اتنے وسائل ہوتے ہیں کہ وہ غریبوں، مسکینوں کی مدد کردیتی ہے، فقراء اور بھکاری تو خیر ہیں ہی نہیں۔ اسلحہ لیکر مسجد کے پاس سے گزرنا تو درکنار، لوگ تو مسجد سے 500 میٹر کے فاصلے تک بحث نہیں کرتے احتراماُ۔ لوگ ملک سے محبت کرنے والے، خبردار ہے جو کوئی ملک کے خلاف بات تک کرجاوئے۔ دنیا بھر کے پھڈے مسجد میں بیٹھ کر ہی نمٹادیے جاتے ہیں۔  

لڑکے بالے ابھی کالج کے آخری برس میں ہوتے ہیں تو انکوحسب لیاقت ملازمت مل جاتی ہے، تنخواہ بہت اچھی اور اوپر سے عوامی سادگی کی انتہاء نمود نمائش تو دیکھنے میں نہیں ملتی، لوگ اپنے نمائش پر خرچنے کی بجائے دوسروں پر خرچنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ بس ہر طرف سکون ہی سکون۔ چین ہی چین۔ 

مرد اور عورتیں سب کے سب تعلیم یافتہ مگر اپنے کام سے کا رکھنے والے، مجال ہے جو کسی کو کوئی گھور کردیکھ جائے، بی بیاں بھی بہت نیک سیرت اور باپردہ اور مرد لوگ ان سے بھی بڑھ کر محتاط۔ بچے بزرگوں کا ہاتھ تھام لیتے ہیں کہ بابا جی آپ کو گھر تک چھوڑ آئیں اور بزرگ بچوں پر جان نچھاور کرتے ہوئے کہ بچے تو سب کے سانجھے ہوتے  ہیں۔
رشوت نام کو نہیں، غلہ اسٹاک بلکل نہیں ہوتا، سسفارش کی ضرورت نہیں ہوتی کہ سب کام خود ہی ہوجاتے ہیں۔ ماسٹر صرف اسکولوں میں پڑھاتے ہیں اور وہی کافی ہوتاہے، ڈاکٹر ہیں کہ مریض کےلئے بچھ بچھ جاتے ہیں اور سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کو اڈیک رہے ہوتے ہیں اور لوگ بیمار ہوتے ہی نہیں، خوراکیں بھی تو اچھی ہیں، ہر چیز خالص، ہر بندہ صبح کی سیر کرتا ہے، نکھٹو ہے کوئی نہیں تو بیمار کون ہوگا۔ لوڈشیڈنگ بلکل نہیں ہوتی اوپر سے بجلی بھی بہت سستی ہے، گیس تو قریباُ مفت ہی ہے۔ پیٹرول بہت سستاہونے کے باوجود لوگ سائیکل سے آتے جاتے ہیں کہ صحت کی صحت اور بچت کی بچت۔ 

ٹیکنالوجی کا یہ عالم ہے کہ بس کچھ نہ پوچھو، یہ ایٹمی روبوٹ سے لیکر میزائیل اور فاؤل پروف دفاعی نظام تو ہماری پہچان ہے، دشمن کی مجال جو ہماری طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھ سکے، یوں بھی ہم ایک قوم ہیں، زندہ قوم ہیں۔ فوج دفاع کو تیار ہے تو لوگ فوج پر جان نچھاور کررہے ہیں، بس ترقی دن دگنی اور رات چوگنی۔


سیاستدان صرف عوام کی فلاح کا کام کرتے ہیں اور سرکاری ادارے خدمت عوام کا۔ جہاں نہ کوئی بڑا ہے نہ کوئی چھوٹا، جہاں کسی گورے کو کالے پر فوقیت نہیں اور کسی کالے کو گورے پر، نہ کوئی امیرکسی غریب کا حق مارتا ہے اور نہ کوئی غریب کسی امیر کو دیکھ کر صدا لگاتا ہے۔ ہر کوئی اپنے کام سے کام رکھتا ہے اور دوسرے کی حق تلفی ایک کبیرہ گناہ سمجھی جاتی ہے۔ 

پاکستان سے کوئی بندہ بیرون ملک روزگار تلاش کرنے نہیں جاتا، جو پہلے چلے گئے تھے وہ واپس آگئے ہیں  یاسر خومخواہ جاپانی صاحب بھی واپس آگئے ہیں، خاور کھوکھر گاڑیاں پاکستان سے جاپان سپلائی کررہے ہیں، علی حسان اور عمیرملک بس تعلیم حاصل کرنے کو ادھر ہیں  پھر انہوں نے بھی واپس ہولینا ہے، میں بھی ادھر صرف پڑھنے پڑھانے کو ہوں، یہ ختم تو ہمارا ادھر کیا ہےکہ جب ملک کے اندر ہی اتنے وسائیل ہیں اتنا نظام ہے تو کیا کرنا پردیس جھیل کر۔ ہمارے پاسپورٹ پر پوری دنیا میں کہیں ویزے کی ضرورت نہیں ہے، بس ٹکٹ لو اور چلے جاؤ۔ لوگ دنیا میں قرآنی حکم کے مطابق صرف سیرکرنے اور علم حاصل کرنے جاتے ہیں۔

ہر خواب کی ایک تعبیر بھی ہوتی ہے، کہتے ہیں کہ ایک ایسے ہی پاکستان کا خواب علامہ اقبال رحمتہ اللہ نے بھی دیکھا تھا، بڑوں کی زبانی بھی ایسے ہی پاکستان کا سنا اور انکی آنکھوں میں بھی کچھ ایسے ہی خواب دیکھے، ابھی تو آنکھ کھلی ہے لیکن امید پوری ہے کہ یہ سچا خواب ہے، ہوسکتا ہے کہ  اس کی تعبیر میں نہ دیکھ سکوں مگر آنے والی نسلیں ضرور دیکھیں گی، 
انشاء اللہ

13 تبصرے:

  1. میرے خیال میں مجھے اب جاپان کا نام ہی پاکستان رکھ لینا چاھئے۔
    جو کچھ آپ کا خواب ہے وہ مجھےمیسر ہے۔
    بس ایک ہی کمی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    یہاں سارے کے سارے جاپانی ہیں ؛ڈ

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. جاپان آلیو ہیرو یہ تو آپ کر چکے. ساتھ ساتھ پاکستان کےلئے دعا کرتے رہو بس. اگر جپانیوں جیسے شٹر سیدھے ہوگئے ہیں تو ہماروں کو تو بس اشارہ چاہیئے

      حذف کریں
  2. خواب اچھا ہے ۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو۔ شاید ایسا ہو بھی جائے۔ لیکن کم از کم ہماری زندگیوں اور ہمارے بچوں کی زندگیوں میں تو ایسا ممکن نہیں شاید ہمارے بعد آنے والی تیسری نسل صدیوں لمبے اس خواب کی عملی تعبیر کی ابتداء دیکھنا شروع کردے۔

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. ٍڈاکٹر صاحب حوصلہ افزائی کا شکریہ امید پہ دنیا قائم ہے ہم بھی

      حذف کریں
  3. ماشا اللہ
    شاید جنت میں کچھ ایسا ہو اپنے اعمال تو ایسے نہیں کہ اللہ مہربان ہو

    جواب دیںحذف کریں
  4. علی الله سے تو پوری امید ہے اور یہ بھی کہ وہ ہمارے اعمال نہیں دیکھے گا ورنہ کجھ نہیں میرے پلے

    جواب دیںحذف کریں
  5. تیری خوابوں کی تعبیر ہو دوست میرے
    پاکستان کی تعمیر ہو دوست میرے

    تیرے الفاظ کو رب میرا زندہ کردے
    رض پاک اپنی تقدیر ہو دوست میرے


    آمین ثم آمین


    کبھی نا کبھی تو یہ خواب پورے ہوں گے. شاید ہم نا ہوں گے ہماری نسلیں ہوں گی. بس دعا ہے کہ زندگی تو دربدر ہے پر قبر اپنی مٹی میں جا کر بنے. آمین

    سب پردیسی بھائیوں کے لیئے دلی دعاہے اور بس آخری بات جو درد ہم اپنے وطن کا محسوس کر سکتے ہیں یہ بھی ایک نعمت ہے کیوں کہ ارض پاک میں رہنے والے اس درد سے ناواقف ہوتے جا رہے ہیں.

    اللہ پاک پاکستان کو پر امن اور ترقی یافتہ کر دئے. کبھی پردیس نا جانا پڑے آمین

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. آمیں. یہی تو وہ دکھ ہے جسکو ملک مین رہنے والے نہیں سمجھ رہےـ خیر باقی نام اللہ کا

      حذف کریں
  6. امید دلانے کا بہت شکریہ سیما جی. رب کی ذات پر پورا اعتماد ہے اپنا تو

    جواب دیںحذف کریں
  7. خواب اور حقیقت کے درمیان فرق اکثر مایوسی پیدا کر دیتا ہے۔ اب چونکہ مایوسی کفر ہے اس لئے اپنا کیا لینا دینا اس سے۔
    ہم تو پاکستانی ہیں جی اصلی و خالص مسلمان۔

    جواب دیںحذف کریں
  8. ارے جناب ایسی بھی کوئی بات نہیں ہے، امید پر دنیا قائم ہے ویسے بھی علامہ خوابناک کے مطابق خواب پر دنیا قائم ہے

    جواب دیںحذف کریں
  9. ڈاکٹر صاحب خواب تو اچھا ہے لیکن

    ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نلے۔

    لیکن چونکہ یہ ایک خواب ہے اور خواب آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے۔اسلئے دعاء کرتے ہیں کہ اللہ اس خواب کو شرمنہ تعبیر کردئے۔

    جواب دیںحذف کریں

اگر آپ اس موضوع پر کوئی رائے رکھتے ہیں، حق میں یا محالفت میں تو ضرور لکھیں۔

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں