ڈاکٹر راجہ افتخار خان کا اٹلی سےاردو بلاگ

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

منگل, ستمبر 10, 2013

ہمارے رویئے

ایک فون کال
اور بھاگتا ہوا کوئی گیا
بن کے ہوا
مسئلہ حل ہوا
خدا کا شکر ادا کیا
پھر خدا حافظ کہا
پھر ملیں گے کا وعدہ
جب فراغت ہوگی
فون پر بات ہوگی
اچھا تفصلی ملاقات ہوگی
پھر کئی دن گزر گئے
موسم بدل گئے
نہ کوئی فون نہ سلام
نہ کوئی ای میل نہ پیغام
میں نے سوچا
کیا ہوا
میں ہی فون کرتا ہوں
احوال پوچھتا ہوں
فون کی گھنٹی بجی
اور بجتی ہی رہی
جواب ندارد
پھر نمبر ملایا
چوتھی بیل پر اٹھایا
جی کڑا کر بولے
بہت بزی ہوں
اور اوپر سے تم بار بار
فون کرکے تنگ کررہےہو
میں کہا تو تھا کہ پھر کبھی بات ہوگی
فراغت کے ساتھ
تفصیلی ملاقات ہوگی
یہ نہ پوچھا کہ خیریت تو ہے
کسی کام سے تو یاد نہیں کیا
سوکھے منہ بھی نہیں 


یہ ایک آزاد نظم ہے، شاید بہت ہی آزاد ہے، کچھ زیادہ ہی، مگ یہ نظم خود ہی سے لکھتی چلی گئی، گویا ایک نظم نہیں بلکہ ایک واردات ہے ، روز مرہ کی واردات، یہاں یورپ میں رہتے رہتے اب تو ان رویوں سے دل بھی دکھنا بس کرگیا ہے۔ 
مگر کبھی کبھی پھر ایک احساس سا جاگ اٹھتا ہے


4 تبصرے:

  1. بچھڑ کر خط بھی نہ لکھے اداس یاروں نے۔۔
    کبھی کبھی کی ادھوری ملاقات سے بھی گئے

    جواب دیںحذف کریں
  2. بہت خوب

    بہت اچھی تحریر ۔۔۔! اچھی نثری نظم ہے۔

    ہمارے رویے بڑے عجیب ہی ہو گئے ہیں۔

    جواب دیںحذف کریں

  3. کسی سے کسی بھی قسم کی امیدیں رکھنا گناہ کبیرہ ھے۔
    اور کسی کی ناراضگی پر ناراض ھونا اس سے بھی بڑا گناہ کبیرہ ھے۔

    بندیا۔ دنیا میں خوش باش رہنا ھے تو گوند بن جا۔ کہ اتارے نہ اترے۔ ٹینس بال بننے والے بس ھر ٹھوکر پر تڑپتے تڑپتے بہت دور جا گرتے ھیں۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. سوکھے منہ بھی نہیں

    جواب دیںحذف کریں

اگر آپ اس موضوع پر کوئی رائے رکھتے ہیں، حق میں یا محالفت میں تو ضرور لکھیں۔

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں