ڈاکٹر راجہ افتخار خان کا اٹلی سےاردو بلاگ

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

اتوار, فروری 16, 2014

ویلنٹائن ڈے منانا ہمارا


ویسے تو  ادھر اٹلی میں رہتے  ہوئے  کئی برس ہوگئے ہیں مگر ویلنٹائن ڈے کے بارے کچھ خاص علم نہیں ہوتا،  آتا تو ہر برس ہے اور گزر بھی جاتا ہے، جبکہ عمومی طور پر کام پر ہوتے ہیں تو سب ادھر مصروف ہوتے ہیں، کسی کو سر کان کھرکنے کی فرصت نشتا۔  اتنے مین کسی کو یاد آگئی اور اس   نے کہ  دیا کہ لو جی آج ویلنٹائن ڈے ہے، اچھا اچھا  لو جی کیا بات ہے، مبارکاں ۔ ۔    ہیں جی      اور پھر یار باگھ اپنے اپنے کام کاج میں سر گھسیڑلیتے ہیں،   کہ ادھر کام کرنا پڑتاہے، حرام خوری کی گنجائش ناں۔            ا     ور  اگر اس دن چھٹی ہوتو  سو کر گزرتی ہے، اب سوئے بندے کو کیا علم کہ ویلنٹائن ڈے آیا کہ نہیں آیا۔

   یا پھر پھول فروشوں کی دکا  ن  کے سامنے سے گزرتے ہوئے معلوم ہوجاتا ہے کہ لو جی  بھائی جان ویلٹائن ڈے آرہا۔    ہیں جی  پھول جو بھیچنے اگلے نے۔   پھر سپر مارکیٹ میں کوئی دو دن پہلے چاکلیٹ کے خانہ  میں ایک پوسٹر دل کا بنا کر لگا دیا جاتا ہے اور دل کی شکل والے سرخ ڈبے میں کچھ چاکلیٹیں مہنگے داموں  سج جاتی ہیں شیلفوں میں۔   آخر کوئی دکان داری بھی کوئی چیز ہے  ، ہیں جی ،   ہاں جی   اس دن ترکیب یہ ہوتی ہے کہ ہر کوئی اپنی چاہتے کے اظہار کےلئے یہی دو طریقے اپناتا ہے، بیوی یا محبوبہ کو پھول اور بچوں کو چاکلیٹ دے کر آئی لو یو  کہہ دیا جاتا ہے ،   ہیں جی۔  اگوں تسیں آپ سیانڑے ہو۔۔

پاکستان میں تھے تو اس کا کچھ علم نہ تھا کہ کیا بلا ہے اور کس چیز کے ساتھ لگا کے اسکو کھانا ہے۔ کرلو گل   ، بقول ہمارے شاہ جی  کے ، ہوسکتا ہے تب ویلنٹائن ڈے کا وجود ہی نہ  ہو،    پر ادھر آکر علم ہوا کہ یہ تو صدیوں پرانا تہوار ہے،  بس ایک دوسرے سے محبت جتلانے کا تہوار، موسم بہار کا پہلا تہوار ہے جب پھول کھلے ہوتے ہیں تو پس دکان داری شروع ہوگئی۔  ویسے شاہ صاحب کی بات اس لحاظ سے صد فی صد درست ہے کہ تب پاکستان میں ویلنٹائن ڈے کا وجود ہی کوئی نہیں تھا۔

ادھر آکر بھی ہم نے اس کو بہت برس تک لفٹ نہیں کرائی۔ کہ سانوں کی، جیسے ہماری عید کا انکو کچھ نہیں ہوتا، ایسے ہی انکے  تہواروں کا ہمیں کیا،   بس دن کلنڈر پر چھٹی نظر آگئی اس دن ہم بھی خوش ہولئے کہ لو جی خان جی کل تو چھٹی ہے پکی، سرخ والی، ہیں جی، رج کے نیندراں پوریاں کرساں۔  ہیں جی۔  اور  ویلنٹائن ڈے کی تو کلینڈر کی بھی چھٹی نہیں  ہوتی  ۔ بس فیر سانوں  کی۔   ہیں جی۔

یہ لوگ گو ہمیں عید منانے سے روکتے نہیں بلکہ مبارک باد بھی دے دیتے ہیں لگے ہاتھوں کہ سنا ہے خان جی کل تمھارا تہوار ہے تو ہماری طرفوں مبارک باد قبولو ، ہیں جی۔  اسی  طرح ہم شکریہ ادا کرتے ہوئے انکے تہواروں  پر مبارک باد دینے میں چوکس رہتے۔ کہ  نیک تمناؤں کے تبادلہ سے محبت میں  اضافہ ہوتا ہے،  اگر نہیں بھی ہوتا تو امکان لازم ہے۔   اگر متکلم ثانی کوئی میم یا اطالوی خاتون ہو تو مبارک بادوں تو تقریباُ فرض کرلیا جاتا ہے کہ یہی موقع ہوتا ہے جب انکے ساتھ گال سے گال لگا کر چومی دی جاتی ہے ، ہیں جی، پھر تو مبارک بنتی ہے کہ نہیں۔  باوجود اسکے کے المولبیان الباکستان فرماتے ہیں کہ کافروں کو مبارک باد نہیں  دینی چاہئے مگر ہم کہتے ہیں کہ کافر کو ہی تو دینی بنتی  ہے مبارک باد، ہیں  جی۔

گزشتہ چند برسوں سے چونکہ  سیٹلائیٹ چیلز بھی دستیاب ہیں اور سوشل میڈیا بھی متحرک ہے اور  ہر  ایرا غیرا ادھر ماشٹرلگا ہوا ہے تو ویلٹائین ڈے کی خبر کوئی ہفتے بھر پہلے ہی ہوگئی جاتی ہے۔ اس برس بھی کوئی ایک ہفتہ قبل حیاداری  کے حق میں، بے حیائی اور بے غیرتی کے خلاف ہال ہال کرکے  نوٹس اور اسٹیٹس آنے شروع ہوئے تو علم ہوگیا۔ جی  ویلنٹائن ڈے آگیا ہے اور المولبیان الباکستان  پوری طور پر  ڈیڈاروں کی طرح چھڑ چکے ہیں۔  اس ایک ہفتے میں ویلنٹائین کی ماں بہن ایک کی گئی، اسکو منانے والوں کے   کانوں کو بھی پگلا ہوا سیسہ ڈال کر بند کیا گیا۔   بقول اپنے حکیم علی صاحب کے  ہر طرف تھیا تھیا اور پھڑلو پھڑلو مچی ہوئی تھی۔

اٹالین اخبارات اور ٹی وی  پر معمول کی ہی خبریں تھیں،   وہی کرونکس ،   سیاست وغیرہ وغیرہ  ۔۔۔۔۔۔ ہیں جی انکو دلچسپی ویلنٹائن ڈے سے ہوتو ۔ پر تہوار موجود ہے بیچ بیچ میں کسی پروگرام میں اسکا ذکر آجاتا، یا پھر دکاندار کے سودے کے اشتہار۔  دکان داری تو آپ کو علم ہے کہ جدھر چلتی ہو یار لوگ ادھر ہی دکان بڑھالے جاتے ہیں۔ ۔


کل صبح روٹین میں ہی اپنے کام کاج پر نکلے، دو ڈاکٹرز کولیگز سے ملاقات تھی۔  پھر دوپہر کو ایک اور دوست کے ساتھ لنچ تھا اسکے ساتھ ایک کیس ڈسکس کرنا تھا۔ ، پھر ایک مریضہ کو دیکھنا تھا، ادھر کوئی اڑھائی گھنٹے کی  میٹنگ رہی۔ مگر ویلنٹائن ڈے کا ذکر کہیں نہیں ہوا،  نہ ہی کسی نے مبارک باد دی، ہاں ہر چوک پر بنگالی سرخ گلاب بیچنے کو تلے ہوئے تھے اور انکی کوشش رہی کہ مجھے بھی پانچ یورو کے تین پھول تھمادئے جاویں، جو عام دنوں میں وہ دو یورو کے بیچتے ہیں، پر یہ تو دکانداری ہوگئی ، ہیں  جی اسکو چھڈو، کاٹھ مارو۔



آج  دن بھر ٹی وی کے سامنے بیٹھنے کا موقع ملا تو جیو والوں نے نسیم وکی کے ساتھ پورا پروگرام فٹ کیا ہوا تھا۔ اور اسکو دیکھ کر انکی چالیں  اور حرکات دیکھ کر اپنے  علامہ مرحوم کا  جواب شکوہ کا مصرع یاد آگیا
یہ وہ مسلماں ہیں جن کو دیکھ کے شرمائیں یہود


اپنے المولبیان الپاکستان سچے ہیں ،  ہمارے ملک میں نودولتئے  اور حرام کی کمائی سے یکا یک امیر بننے والے جو ہیں وہ  اب ویلنٹائن ڈے منارہے اور کھل کھلا کر منارہے، جس طریقہ سے  وہ منارہے اسکو اٹالین بھی دیکھ کر شرماجائیں۔  ہیں جی۔








5 تبصرے:

  1. وچکارلا راستہ کسی کام میں بھی نہیں ہے جی اپنے ہاں۔ نفرت وی رج کے اور محبت بھی انتہا کی

    جواب دیںحذف کریں
  2. مولوی سچے ہیں جی اس معاملے میں۔
    اب فاطمہ بھٹو کو تین پھول ایک عدد گفٹ اور ایک شاندار ڈنر کی دعوت دے دوں تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حرام دیاں دی غیرت جاگ جائے گی۔
    یہ بے غیرت نچلے طبقے کی عوام کو بے حیا کرنے پہ تلے ہو ئے ہیں۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. ہمارے ادھر تو وہ یلا مچی ہوئی کہ پوچھو کچھ نہین، جنکا تہوار ہے انکو ایک دن پہلے یاد نہن ہوتا، جو منائے منائے نہ منائے نہ منائے، کوئی بڑا تہوار نہین ہے، مگر جو لے پالک ہیں وہ باقاعدہ ٹی وی پروغرام کررہے ہوتے اور گالیاں دینے والے وہ بھی کررہے ہوتے ہیں، بس

    جواب دیںحذف کریں
  4. سرکاری سانڈ سہی کہے تھا
    یہ پاکستانی قوم کنجروں سے بڑھ کے کنجر ہے
    بس ان کو موقع ملنے کی دیر ہے

    جواب دیںحذف کریں
  5. بہت سلیس لکھا ہے، اصل میں ساری بات ترجیحات کی ہے ، اور یہ وہ قوم ہے جس کی ترجیحات ہی گوروں نے گُم کردی تھی ۔
    اُس کے بعد سے دیکھ لیں جو کبھی مقصدیت نظر آئی ہو۔

    جواب دیںحذف کریں

اگر آپ اس موضوع پر کوئی رائے رکھتے ہیں، حق میں یا محالفت میں تو ضرور لکھیں۔

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں