ڈاکٹر راجہ افتخار خان کا اٹلی سےاردو بلاگ

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

منگل, ستمبر 30, 2014

تجاوزات



دکان کے آگے فٹ پاتھ پر تھڑا بنانا 
ریڑھی لگانا چھاپہ لگانا
رستہ بند کر دینا
یہ تو ایک عام سی بات ہے ۔
عموماً عوام بھی کچھ کہے بغیر موٹر سائیکل ، گاڑی ، گدھا گاڑی سے جان بچاتے ہوئے سڑک پر سے گذر جاتے ہیں۔
میں نے ایک کارنر والی دکان کے سامنے کے رستے پر تجاوز کرکے بنے ہوئے تندور کو دیکھا اور ساتھ والے سے کہا کہ ادھر سے نکلنے والے کو سیدھی طرف سے آنی والی گاڑی یا پیدل لوگ نظر نہیں آتے یہاں ایکسیڈنٹ ہو چکا ہو گا۔اگر نہیں ہوا تو ضرور ہو گا۔
سننے والے نے کہا تھا ہے تو غلط بات لیکن آج تک کوئی حادثہ نہیں ہوا،اس لئے ہم نے بھی کبھی سوچا نہیں۔
بس میری "کالی" زبان" اور اسی دن بچوں کو سکول لانے لے جانے والی گاڑی نے گاڑی افورڈ نہ کر سکنے والے بچوں میں گاڑی اسی جگہ گھسیڑ دی۔
ہاہا کار ہائے ہائے مچی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور میں دیکھ رہا تھا کہ تندروچی مزے سے روٹیاں لگا رہا تھا۔ کچھ بچے چوٹیں سہلاتے گھروں کو واپس جارہے تھے جو لمبے پڑے چیخ رہے تھے انہیں آس پاس کے لوگ گاڑی لاؤ اوئے۔
زخمی بچوں کو اسپتال لیکر جانا ہے کا شور مچا رہے تھے۔
آپ اس طرح کے حادثے کے بعد لوگوں کی بے لوثی اور خلوص کے ساتھ "متاثرین" کی مدد دیکھ کر فخر محسوس کر سکتے ہیں۔
دیکھو ہماری قوم "زندہ" ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہیں جی
یہاں جاپان میں میرے گھر کے بالکل پیچھے ایک سیون الیون فرنچائیز کنوینینس سٹور ہے۔ لوکیشن اچھی اور کارنر پر ہونے کی وجہ سے اس کے وسیع و عریض پارکنگ لاٹ میں چوبیس گھنٹے گاڑیوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔
پارکنگ بڑی ہونے کی وجہ سے ہیوی ڈیوٹی ٹرک رات کو آتے ہیں اور ڈرائیور رات کو گاڑی کھڑی کرکے سوجاتے ہیں۔
گرمیاں ہوں یا سردیاں ان ٹرکوں کے انجن سٹارٹ رہتے ہیں ، جس کی وجہ سے ہم رات کو کھڑکی کھول کر سو نہیں سکتے۔
اس کے علاوہ بھی قریبی علاقے کے لوگ جو کہ اس سٹور سے خریداری کیلئے آتے ہیں ہمارے گھروں اور باغیچوں سے گذرنا شروع ہو گئے تھے۔
بچے اور آجکل ہمارے علاقے کچھ "دیسیوں" اور دیگر غیر ملکیوں کے بچے ہمارے اور پڑوسیوں کے باغیچوں سے گذرنا شروع ہو گئے تھے۔
سٹور کی پچھلی طرف کھلی جگہ ہونے کی وجہ سے بچوں نے کھیلنا شروع کر دیا تھا اور گیند ہماری دیواروں سے ٹکراتی تھی،
بچے گیند اٹھانے کیلئے ہمارے باغیچے میں گھس جاتے تھے۔ کھا پی کر کچرا پھینک دیتے تھے۔ جس کی وجہ سے گندگی ہونا شروع ہو گئی تھی۔
ایک دو بار بچوں کو منع کیا لیکن کوئی اثر نہیں ہوا۔
تنگ آکر سٹور کے مالکان سے شکایت کی تو سٹور کے مالک کے نے ہفتے میں ایک بار صفائی کرنا شروع کر دی۔
ہم مزید تنگ ہوئے تو "سٹور کی فرنچلائیز کمپنی" سے کہا کہ کچھ کیجئے ورنہ ہماری مجبوری ہے عدالت سے رجوع کرنا پڑے گا۔
شکایت کے فوراً بعد کمپنی والے آئے معذرت کی اور کہا کہ جتنی جلد ہو سکا تحقیق کرکے ہم مسئلہ حل کر دیں گے۔
دو ماہ بعد آج آئے "تحائف" ساتھ لائے اور ہمیں انتہائی مودبانہ انداز میں "رپورٹ" پیش کی کہ 
سٹور کی پچھلی طرف چاردیواری بنائی جائے گی اور چاردیواری بھی وہ والی جس سے "شور " کو دبا کر ختم کر دیا جائے گا۔
تاکہ آپ کی راتوں کی نیند پُرسکون رہے۔ اتنا عرصہ جو آپ کو تکلیف ہوئی ہم اس کی معذرت چاہتے ہیں۔ 
ساتھ میں انہوں نے نقشہ اور تعمیراتی پلان کی تفصیل بتائی ، اخراجات بتائے اور ہماری رضامندی کیلئے ایک عدد کنٹریکٹ پر دستخط کروائے۔
اخراجات جو آنے ہیں پاکستانی تقریباً ایک کروڑ روپے کی خطیر رقم ہے جو کہ جاپان میں بھی خطیر رقم ہی ہے۔
صرف تین گھروں کیلئے جو کہ سٹور کے "پڑوسی" ہیں صرف ان کی راتوں کی نیند کے سکون اور دیگر پریشانیوں کیلئے "ایک کروڑ" کی رقم لگائی جا رہی ہے۔ 
یہ صرف قانون کی حکمرانی کی وجہ سے ہے ورنہ جاپانی تو ایسی وحشی قوم تھی کہ جنگ میں کھانے کو نہ ملنے کی وجہ سے بندے بھون کا کھا جاتے تھے اور وہ "خیال" کرکے کہ "جاپانی" نہیں کھانا۔
کسی دوسری قوم کا ہے تو کھانے میں کو حرج نہیں 

اور میری قوم کے لوگ دوسری قوم کیطرف دیکھتے ہی نہیں پہلے جس پر "ہاتھ" پڑے اسے ہی کچا چبا ڈالتے ہیں۔۔
رو عمران رو
گو نواز گو 

  بشکریہ، محترمی و مرشدی یاسر خوامخوہ جاپانی مذلہ علیہ و عفی اللہ عنہ
آپ جناب نے اپنے بلاگ پر چھاپنے کی بجائے ادھر شائع کرنے کی اجازت مرحمت فرماکر راقم الحروف کو عزت بخشی۔ 
گو نواز گو، 
رو عمران رو



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اگر آپ اس موضوع پر کوئی رائے رکھتے ہیں، حق میں یا محالفت میں تو ضرور لکھیں۔

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں